Lajawab, Jawab Muddaton Yaad Rahega
لاجواب، جواب جو مدتوں یاد رہیگا

سوال اٹھایا جا رہا ہے بلکہ یوں کہیے کہ سوال اٹھوانے کی کوشش ہو رہی ہے کہ اگر سو سے زائد میزائل تل ابیب پر گرے تو زخمی محض سات کیوں؟ یہ کیسا بدلہ تھا؟ یہ کیسی جنگ تھی؟ سادہ سا جواب یہ ہے کہ جنگ کوئی فلمی منظر نہیں جسے ناظرین کے جذبات کی تسکین کے لیے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جائے۔ اصل حقیقت وہی ہوتی ہے جو دکھائی نہیں جاتی اور جب دکھائی نہیں جاتی تو اس کی تشریح بھی کوئی آزاد ذہن ہی کر سکتا ہے۔ تل ابیب پر گری آگ نے صرف جسم نہیں جلائے۔ غرور بھی جھلسایا ہے۔ مگر چونکہ بین الاقوامی میڈیا ان کے قابو میں ہے اس لیے آنکھ میں دھواں پڑنے کی خبر دب گئی اور زخمی ضمیر چیخ کر بھی کچھ نہ کہہ پایا۔ دنیا کو دکھایا گیا کہ بس سات زخمی۔ باقی سب خیر ہے مگر سچ تو یہ ہے کہ خیر نہیں ہے۔ جب میزائل فضا کو چیرتے ہوئے دلوں تک اترتے ہیں تو نقصان صرف جسموں کا نہیں ہوتا ذہن بھی لرزتے ہیں۔ ادارے بھی اور سب سے بڑھ کر تکبر بھی۔
یہ دہلی اور تل ابیب کے یارانے بھی عجیب ہیں۔ وہاں بھی نقصان چھپانا عادت ہے یہاں بھی اسرائیل میزائل نگل جاتا ہے دہلی والے رافیل گنوا دیتے ہیں مگر دونوں کے ہونٹ سلے رہتے ہیں۔ نہ وہاں سے آہ نکلتی ہے نہ یہاں سے سچ وہ دن کسی کو یاد ہے جب پاکستان نے دن کی روشنی میں سب کی آنکھوں کے سامنے بھارت کے دو طیارے گرا دیے؟ ایک پائلٹ زندہ پکڑا گیا، دوسرا خاک ہوا۔ پھر بھی دہلی والے نریندر کے جھوٹ کے تکیے پر سو گئے اور خراٹے لیتے رہے اور پھر بھی سوال ہم سے پوچھے جاتے ہیں۔ کیا میزائل بیکار گئے؟ کیا بدلہ ناکام رہا؟ بھائی، جنگوں میں ہلاکتیں نہیں گِنی جاتیں، جواب گِنے جاتے ہیں اور یہ جواب ایسا تھا کہ خود سوال کرنے والے لاجواب ہو گئے۔
یہ بھی دھیان میں رکھنا چاہیے کہ اسرائیل وہ ملک ہے جس کے پاس دنیا کی مہنگی ترین ٹیکنالوجی ہے سب سے جدید دفاعی نظام ہے۔ جسے آئرن ڈوم کہتے ہیں۔ لیکن سوال یہ نہیں کہ کتنے میزائل رُکے سوال یہ ہے کہ اتنی مضبوط دفاعی دیوار کے باوجود میزائل اندر کیسے آئے؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب تل ابیب کے حکمرانوں کو خود اپنے عوام سے چھپانا پڑ رہا ہے اور چھپانا پڑتا ہے، کیونکہ جب تکبر کا تاج سر پر ہو شکست کا سچ زہر لگتا ہے اس لیے ہم صرف میزائل نہیں گنتے ہم وہ خاموشی گنتے ہیں جو ہر حملے کے بعد تل ابیب کے گلی کوچوں پر چھا جاتی ہے۔ ہم وہ بدحواسی پڑھتے ہیں جو دنیا کے سب سے بڑے حمایتی چینلز کے خبروں میں جھلک جاتی ہے۔ ہم وہ شرمندگی محسوس کرتے ہیں جو اقوام متحدہ کی دیواروں میں دب کے رہ جاتی ہے۔
تو بھائیو سوال پوچھنے سے پہلے یہ یاد رکھو
جواب دیا گیا اور لاجواب دیا گیا

