Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shair Khan
  4. Khwahishon Ke Qasid Asoolon Ke Sodagar

Khwahishon Ke Qasid Asoolon Ke Sodagar

خواہشوں کے قاصد اصولوں کے سوداگر

عجیب تماشہ ہے صاحب! اس مٹی میں کچھ لوگ ایسے بھی اُگتے ہیں جن کی اداکاری پر اگر ایوارڈ نہ دیا جائے تو خود ایوارڈ شرمندہ ہو جائے ان کی سانسیں بھی اس قدر ڈرامائی ہوتی ہیں کہ لگتا ہے زندگی نہیں کوئی فلمی مکالمہ بول رہے ہوں یہ اپنے وجود میں ایک ایسی لمبی فلم لیے پھرتے ہیں جس کی کہانی ان کے علاوہ کوئی سمجھ ہی نہیں سکتا کارکردگی صفر لیکن جلوے فلک شکن۔

یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے کل تک منبر پہ کھڑے ہو کر چیختی ہوئی آواز میں اعلان کیا تھا کہ جو دہشت گردی ہے، اس کے پیچھے وردی ہے دور سے بڑے دلیر لگتے تھے مگر حقیقت یہ تھی کہ حوصلہ انہوں نے اُدھار لیا ہوا تھا اور آواز کرائے پر اب وہی بے باک آوازیں اپنی ہی خواہشات کی گلیوں میں دبک گئی ہیں بلکہ انہی دہشت گردی کے جوتوں کی دھول بن چکی ہیں جہاں اخلاق کی کتابیں نہیں پڑھیں جاتیں، بس خلوتوں کے وقت طے کیے جاتے ہیں اور بڑی بے شرمی سے کہتے ہیں پلیز کچھ دیر اور سہارے دیجئے ورنہ ہم بے موت مر جائین گے۔

دنیا دیکھ رہی ہے کہ اصولوں کی قبریں بہت پہلے خود انہوں نے کھود دی تھیں اور اب انہی قبروں میں اپنی عزت کے شکستہ چراغ دفن کر رہے ہیں۔ بیانات کے پہاڑ کھڑے کرنے والے آج اپنی ہی خواہشات کی دھند میں راستہ بھولے پھر رہے ہیں۔ اخلاق، غیرت، وقار یہ الفاظ ان کے گھروں کی دیواروں پر تو لکھے ہیں مگر ان کے دلوں کے اندر گھر نہیں پاتے وہاں تو صرف ایک ہی درویش رہتا ہے خواہشات کا درویش جس کے سامنے باپ بھی چھوٹا پڑ جاتا ہے، چچا بھی اور کبھی کبھی، خود بھی ہاتھ باندھے التجایہ نظروں سے تھوڑا تھوڑا شرماتے ہوئے مہربان کرو صاحب غلطی بھولے سے ہوگئی۔

کیا کہیں صاحبو یہ خاندان اگر بیانئے میں قائم رہتا تو شاید تاریخ کا سینہ تھوڑا کم زخمی ہوتا مگر یہاں تو حال یہ ہے کہ خواہشات کا ہجوم جب اٹھتا ہے تو اصولوں کو ایسے روندتا ہے جیسے بارش کے بعد کیچڑ میں بچے کاغذ کی کشتیاں روندتے ہیں غیرت۔۔

ارے چھوڑئیے! وہ تو ان کے گھروں کے باہر سے گزرتے ہوئے بھی منہ پھیر کر نکل جاتی ہے کہ کہیں اسے بدنام نہ سمجھ لیا جائے۔ یہ کردار بڑے عجیب ہیں صاحب! ان کے چہروں پر شرافت کی تہیں ہیں اور اندر تماشے کا اسٹیج دنیا انہیں معصوم سمجھ کر تالیاں بجاتی ہے اور اندر سے یہ اپنے کردار بدلتے رہتے ہیں۔ یہ انقلاب کے بھیس میں خواہشوں کے قاصد اصولوں کے لبادے میں ذاتی مفاد کے سوداگر اور شرافت کی نقاب میں وہ ہنر مند اداکار جو ہر منظر میں نیا بے شرمی کا چہرہ پہن کر آتے ہیں۔ بس یہی المیہ ہے یہ لوگ زندگی نہیں جیتے کردار نبھاتے ہیں اور کردار بھی وہ، جو اسٹیج پر تو چمکتے ہیں مگر تاریخ کے صفحوں پر بدبودار دھبے بن جاتے ہیں اور انکے چہرے پر کالک مل کر رہتی دنیا تک ایک داستان رقم چھوڑ جاتے ہیں۔

Check Also

Mian Muhammad Baksh (19)

By Muhammad Sarfaraz