Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shair Khan
  4. Khalis Ke Naam Per Do Numbri Kyun

Khalis Ke Naam Per Do Numbri Kyun

خالص کے نام پر دو نمبری کیوں

آپ بیرون ملک چلے جائیں، آپ کو کہیں بھی لکھا نہیں ملے گا کہ خالص دودھ، خالص گھی، خالص شہد، خالص اجزاء سے تیار فلاں چیز، خالص تانبا، خالص آٹا یا سو فیصد خالص انار کا جوس وغیرہ وغیرہ، وہاں لفظ خالص کا تصور خالص تک ہی ہے، وہاں ان چیزوں میں ملاوٹ کا تصور موجود ہی نہیں کہ بھلا ان میں بھی ملاوٹ کی جاسکتی ہے۔ وہ اپنی برانڈز کے نام یروشلم کی کسی عبادت گاہ یا روم کے کسی چرچ کے نام پر بھی نہیں رکھتے۔

کہ مذہبی جذبات کا فائدہ اٹھا کر زیادہ سے زیادہ منافع کما پائیں۔ وہ اقوام اپنی چیزوں کو بہتر سے مزید بہتر کر کے مارکیٹ میں لاکر ایمانداری سے زیادہ سے زیادہ بکری چاہتے ہیں۔ یہی ان کی ترقی کا سبب ہے۔ ہمارے ہاں انداز ہی نرالہ ہے، بلکہ یوں کہیں کہ ہم بڑے ہی کمال صفات سے لبریز کٹر مسلم جب تک دودھ میں پانی، شہد میں گڑ اور دیگر جتنی بھء چیزیں ہیں۔

جب تک ملاوٹ نہیں کریں گے، ہمارا ایمان مکمل نہیں ہوتا اور نہ ہی ہمیں سکون ملتا ہے۔ حد تو یہ ہے ہم حج کرنے جاتے ہیں، تو واپسی پر سب سے اہم کام یہ ہوتا ہے کہ آب زم زم میں ملاوٹ کرنا راجہ بازار سے تسبیح جائے نماز خرید لوگوں کو عزیزوں کو یہ بتانا یہ سعودیہ سے لیکر آئے ہیں۔ حج کے بعد ہم دس دن بھی اپنے ایمان پر ثابت قدم نہیں رہتے یہ تو ہم مسلمانوں کا المیہ ہے میں یہ نہیں کہتا کبھی ایسا کرتے ہیں بیا سبھی ایسے ہیں۔

بہت اچھے مدلمان بھی ہیں جو حج سے پہلے اور بعد میں بھی اپنے ایمان پر ثابت قدم نظر آتے ہیں مگر ایسے لوگ آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ اسکے علاوہ اسلامی شہد، مدنی گھی، مکی آٹا وغیرہ اور مزید اضافہ کہ سو فیصد خالص۔ ارے بھائی یہ خالص لکھنے کی نوبت آخر کیوں پیش آئی؟ کیوں کہ ہم بحیثیت مسلمان کردار کے اتنے اچھے ہیں ایک تو ملاوٹ کر کے گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں پھر اس گناہ کو چھپانے کی بجائے توبہ کرنے کی بجائے ایک اور گناہ یہ سو فیصد خالص جیسے غلیظ لفظ سے مزید گناہ کا مرتکب ہوتے ہیں آخر ایسا کیوں ہے؟

ایسی کون سی چیز ہے جو ہمیں اس جھوٹ کے دلدل میں پھنسا دیتی ہے اور ہم مسلمان اس چیز سے چھٹکارا حاصل نہیں کر پاتے۔ یہاں ہر طرف ملاوٹ ہی ملاوٹ ہے اسلئے لوگوں کو چکر دینے کے لئے ہمیں جھوٹ کا سہارا لینا پڑتا ہے مکاری ہے، جھوٹ، فریب، ملاوٹ ہے۔ لوگوں کو کماحقہ لکھ کر، بتا کر جتانا پڑتا ہے کہ جناب ہماری چیز خالص ہے اس پر مزید رنگ مذہبی عقیدت کا چڑھا دیا جاتا ہے تاکہ لوگوں کو پکا یقین ہو جائے کہ اب تو اس کا خالص ہونا یقینی بنتا ہے حالانکہ تب بھی معاملہ ویسا نہیں ہوتا۔

یہاں گائے، بھینس انجیکشن کے زور پر دودھ دیتی ہے، عام گھی میں کچھ ایسنس ملا کر دیسی گھی بنایا جاتا ہے، گڑ میں شہد کا فلیور ملایا جاتا ہے، لوہے میں تانبے کی رنگت ملا کر اسی ہی کی شکل میں ڈھالا جاتا ہے، زیورات پر سونے کا پانی چڑھا لوگوں کو دھوکہ دیا جاتا ہے، بھوسی ملے آٹے کو کیمیائی مشینری کے ذریعے بو سے پاک کیا جاتا ہے، مسالوں میں لکڑی کا بورادہ مکس کیا جاتا ہے، گھی میں چربی مکس کی جاتی ہے اور نہ جانے کیا کیا۔ خدا ہم مسلمانوں پر رحم کرے۔

جب کوئی قسم کھا کر کہے قسم خدا کی ایسا ہے ویسا ہے سمجھیں دال کالی ہے۔ کافروں کے ہاں یہ قسم اور جھوٹ کا تصور نہیں، ایسا نہیں کہ وہ جھوٹ نہیں بولتے ہونگے۔ اچھے برے ہر جگہ ہیں پر ہمارے ہاں حالات سخت برے ہیں۔ ہم ہدایت مانگتے ضرور ہیں پر سچائی پر چلنے واسطے پیٹ میں مروڑ آتے ہیں۔ حرام کے لقمے میں ہمیں بڑا سکون ملتا ہے یعنی بڑی چس آتی ہے خدا خیر کرے ہم جیسے مسلمانوں پر۔

چین سمیت ہر ملک میں جعلسازی جھوٹ کسی نہ کسی شکل میں موجود ضرور ہے، پر ان پر ناقابل معافی سزائیں بھی ہیں اور یہاں شاید ایسا کوئی قانون ہی نہیں ہے اور بلاخوف و خطر، ہر قسم کی دو نمبری کام، ملاوٹ، رشوت، سود، دھوکہ دہی، کمیشن اپنے عروج پر ہے اور کہنے کو ہم مسلمان ہیں۔ کردار میں کافروں سے بد تر۔ خود احتسابی کا فقدان ہے کبھی۔ تنہائی میں بیٹھ کر ہمیں یعنی ہم۔

مسلمانوں کو اپنا محاسبہ کرنا ہوگا ایسا نہ بروز قیامت ہم مسلمان ہوتے ہوئے مجرموں کی صف میں کھڑے ہوں اور پوری زندگی ہم جنکو کافر کفر کہتے رہے وہ ہم سے کردار میں بہتر نظر آئیں۔ کافر تو یہ نہیں جانتے حرام کیا حلال کیا ہے، مگر ان کے اصول ایسے ہیں کہ یہی حلال و حرام کی تمیز سکھاتے ہیں، یہی اصول انسانیت کی تمیز اور حترام انسانیت سکھاتے ہیں۔

دیکھا جائے تو یہ اصول ہم۔ مسلمانوں میں ہونے چاہئے تھے۔ مگر کیا کریں یہ اس پر غیر مسلم مسلمانوں سے سبقت لے گئے۔ ہم کس بات پر مسلمان ہونے کی فخر کرتے ہیں۔ ہمارا ایک کام بھی مسلمانوں والا نہیں۔

Check Also

Netherlands

By Zaigham Qadeer