Karbala Aik Paigham Hai
کربلا ایک پیغام ہے

ہمارے ہاں بہت کچھ زندہ ہے مگر صرف تقاریر میں۔ جذبات بھی ہیں، سوز و گداز بھی آنکھوں سے بہتے اشک بھی اور سینوں پر پڑتے زنجیر کے نشان بھی۔ لیکن جب امام حسینؑ کا پیغام عمل مانگتا ہے قربانی طلب کرتا ہے، ضمیر کو جھنجھوڑتا ہے تو ہم نظریں چرا لیتے ہیں ہم ایک ایسی امت ہیں جو ہر سال دس محرم کو خود کو حسینی ثابت کرنے پر زور دیتے ہیں مگر گیارہ محرم سے لے کر اگلے محرم تک یزیدی سوچ کو اپنی سیاست معیشت، سماج اور کردار میں پالتے رہتے ہیں ہمارا ماتم سچا ہو بھی سکتا ہے لیکن ہماری خاموشی جھوٹ ہے۔ ہماری غیرت صرف جلوس کی حد تک زندہ ہے میدانِ کربلا کی پیروی میں ہم صفر ہیں۔
امام حسینؑ نے کربلا میں فقط جنگ نہیں لڑی، ایک نظریے کو ہمیشہ کے لیے زندہ کر دیا۔ ایک ایسی للکار دی کہ باطل کی ہر شکل، ہر لباس، ہر وقت میں بے نقاب ہوتی رہے گی۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم آج بھی اس للکار کو سننے کے قابل ہیں؟ یا ہماری سماعتیں یزیدی نعروں سے آلودہ ہو چکی ہیں؟
کربلا 61 ہجری میں ختم نہیں ہوئی۔ یہ وہ مشعل ہے جو ہر ظلمت کو روشنی میں بدلتی ہے، بشرطیکہ ہم اس سے روشنی لینے کا حوصلہ رکھیں۔ یہ معرکہ دو افراد یا دو فوجوں کا نہیں دو نظریات کا تھا ایک طرف اقتدار پرستی نفس پرستی جبر، فساد اور مذہب کے نام پر فریب تھا اور دوسری طرف سچ، قربانی، وفا اور رب کی رضا پر یقین۔
امام حسینؑ کی انکار کوئی سیاسی چال نہ تھی، بلکہ وہ نانا ﷺ کے دین کو بچانے نکلے تھے۔ وہ دین جسے اقتدار کے پجاریوں نے تخت و تاج کا ہتھیار بنا دیا تھا۔ وہ دین جسے جبر کے نیچے دفن کیا جا رہا تھا۔ امام نے انکار کا حق ادا کر دیا لیکن ہم ہم کوفی بن گئے ہیں ہمارے ہاں ظالم کی مجلسوں میں حاضری دینا جرم نہیں بلکہ ترقی کا زینہ سمجھا جاتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کون حق پر ہے اور پھر بھی خاموش رہتے ہیں۔
ہم دیکھتے ہیں کون مظلوم ہے اور پھر بھی صفِ ظالم میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ آج فلسطین میں ظلم ہے، کشمیر میں قید ہے یمن میں آہیں ہیں شام میں آنکھوں کی نمی ہے غزہ لہو لہو ہے لیکن مسلم دنیا کا حال کیا ہے؟ مصلحتوں کا لبادہ اوڑھے تماشائی بنے اقوامِ متحدہ کی قراردادوں پر نعرے مارنے والے حقیقت میں سرد لاشے یقیناً ہم کوفہ کے لوگ نہیں مگر ہمارے رویے، ہماری خاموشی، ہماری بے حسی، ہماری تمام ادائین ہمیں کوفیوں کی صف میں لا کھڑا کرتی ہیں بیشک ہم انکار کریں حقیقت یہی ہے۔
امام حسینؑ نے دنیا کو ایک عجیب و انوکھا سبق دیا فتح کا تعلق طاقت سے نہیں، حق سے ہوتا ہے۔ میدانِ جنگ میں تنہا ہونا شکست نہیں اگر تم سچ پر ہو۔ کربلا اس وقت کے عرب سماج کی سیاسی بغاوت نہیں تھی بلکہ یہ قیامت تک کے لیے حق کا علم تھا۔ حسینؑ نے بتایا کہ حاکم اگر ظالم ہو تو اس کی اطاعت بندے کو خوار کر دیتی ہے۔ حسینؑ نے بندے کو سر اٹھا کر جینے کا سلیقہ سکھایا۔ وہ نواسۂ رسولﷺ جسے دشمن نے پانی سے محروم کیا، مگر اس نے دشمن کو پانی پلایا۔ وہ امام، جس کی لاش کربلا کے گرم ریگزار پر پڑی رہی، مگر اس کی صدا عرش ہلا گئی آج بھی ہم عزاداری کرتے ہیں مگر یہ عزاداری ہمیں سچ بولنے کا حوصلہ نہیں دیتی۔
حق کے ساتھ کھڑا ہونا نہیں دیتی ہم علم اُٹھاتے ہیں مگر سچ کا پرچم زمین پر گرا رہتا ہے۔ ہم شبیہ بناتے ہیں مگر خود کو حسینی بنانے کا قصد نہیں کرتے۔ اگر امام حسینؑ زندہ ہوتے تو وہ شاید ہمیں دیکھ کر اشک بہاتے۔ ہم نے ان کی قربانی کو صرف ایک موسمی عقیدت میں بدل دیا ہے ہم نے انہیں مقید کر دیا ہے۔۔ مجالس میں جلوسوں میں ماتم داری میں اور ساتھ ہی ساتھ منافقت میں۔ ہم شرمندہ اس لیے نہیں کہ ہم نے کربلا کا ساتھ نہ دیا بلکہ اس لیے کہ آج بھی جہاں باطل کھڑا ہے ہم وہاں سر جھکا کر چلتے ہیں ہم شرمندہ ہیں کہ ہم نے ظلم کو حکمتِ عملی مصلحت کو دانائی اور خاموشی کو فہم کا نام دے دیا ہے۔
ہم شرمندہ ہیں کہ ہم نے جابر کے سامنے کلمۂ حق کہنا چھوڑ دیا ہے بلکہ اسکی خوشامد میں بہت آگے نکل گئے ہیں کاش ہم یزید کو صرف تاریخ کا کردار نہ سمجھتے بلکہ اپنے وقت کے یزیدوں کو پہچانتے کاش ہم امام حسینؑ کو صرف ماتمی نعرہ نہ سمجھتے بلکہ ان کا کردار، ان کا حوصلہ ان کا پیغام سمجھتے کاش ہم اُن کے نام پر زندگی گزارنے کے بجائے اُن کے طرز پر جینا سیکھتے۔
حسینؑ کوئی شخص نہیں ایک نظریہ ہے ایسا نظریہ جو ہر مظلوم کو حق مانگنے کا حوصلہ دیتا ہے اور ہر ظالم کو اس کے انجام کی خبر سناتا ہے۔ جب بھی ظلم سر اٹھائے گا جب بھی باطل نعرہ بلند کرے گا جب بھی جبر کو لباسِ دین پہنا دیا جائے گا تو وہاں حسینؑ ہوں گے اور ان کے ماننے والے بشرطیکہ وہ فقط ماننے والے نہ ہوں بلکہ عمل والے ہوں اور اس پر چلنے والے ہوں ورنہ یوں ہی روتے رہیں گے ماتم کرتے رہیں گے اور تاریخ میں کوفیوں کی اگلی نسل کہلائیں گے۔ بس اب ضرورت ہے مشن حسین ع پر عمل کرنا ظالم کے سامنے ڈٹ کے کھڑا ہونا یہ عملی نمونہ ہمیں ایران ا س رائیل جنگ میں بطورنمونہ دیکھنےبکو ملا ظالم جتنا مرضی طاقتور ہو وہ سچ کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔

