Karake Ki Sardi Aur Jashan e Mayfang
کڑاکے کی سخت سردی اور جشن مے فنگ

کڑاکے کی سردی میں لپٹا سرفرنگا کا صحرا آج زندگی سے بھرپور دکھائی دیتا ہے یخ بستہ ہواؤں کے باوجود جشنِ مے فنگ نے ریت کے ذروں میں حرارت بھر دی ہے بچے قہقہے لگاتے جوان جوش و جذبے سے سرشار اور بوڑھے ماضی کی خوشیوں کو حال میں سمیٹتے نظر آتے ہیں عورتوں کے رنگ برنگے لباس اور مسکراہٹیں اس صحرا کو تہوار میں بدل دیتی ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے سردی بھی اس اجتماعی خوشی کے آگے ہار مان گئی ہو اور سرفرنگا کا صحرا چند لمحوں کے لیے مسرت کا استعارہ بن گیا ہو۔
جشن مے فنگ بلتستان کے علاقے میں منایا جانے والا ایک قدیم تہوار ہے جو خاص طور پر سکردو اور اس کے آس پاس کے علاقوں جیسے سرفرنگاہ (سارفرانگا کولڈ ڈیزرٹ) میں بڑے جوش و خروش سے منعقد ہوتا ہے یہ تہوار ہر سال 21 دسمبر کو بڑے جوش و خروش کے ساتھ منایا جاتا ہے جو شمالی نصف کرہ میں موسم سرما کا سب سے لمبا دن اور سب سے چھوٹی رات ہوتی ہے۔ بلتی زبان میں مے کا مطلب آگ ہے جبکہ فنگ کا مطلب پھونکنا اڑانا یا روشنی پھیلانا سے منسلک ہے۔ یعنی یہ آگ اور روشنی کی لہروں کا تہوار۔ ہے یہ تہوار بلتستان کی قدیم ثقافتی ورثے کا حصہ ہے اور اسے مقامی لوگ اپنی شناخت اور روایات کو زندہ رکھنے کے لیے مناتے ہیں۔
جشن مے فنگ کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے اور اسے 1000 قبل مسیح یا اس سے بھی پہلے کا تہوار قرار دیا جاتا ہے اس کی جڑیں تبتی علاقوں کی قدیم مذہبی روایات سے منسلک ہیں خاص طور پر بون (Bön) مذہب سے۔ جو تبت میں بدھ مت اور اسلام سے پہلے کا غالب مذہب تھا بون ایک شمنی (شمنیت) پر مبنی مذہب ہے جو فطرت روحوں اور اچھائی بدی کی جدوجہد پر مرکوز ہے کچھ ذرائع کے مطابق یہ تہوار بون مذہب سے لیا گیا ہے جبکہ دیگر کا کہنا ہے کہ اس میں زرتشتیت (Zoroastrianism) کے اثرات بھی شامل ہو سکتے ہیں، کیونکہ زرتشتیت میں آگ کو مقدس مانا جاتا ہے یہ تہوار بلتستان کو چھوٹا تبت کہنے کی وجہ سے بھی منسلک ہے کیونکہ بلتستان تاریخی طور پر تبتی ثقافتی دائرے کا حصہ رہا ہے۔ مقامی لوک داستانوں کے مطابق یہ تہوار ایک آدم خور بادشاہ کی موت کا جشن ہے جسے بدی کی علامت سمجھا جاتا ہے اسے جلانے اور آگ کے گرد رقص کرکے اچھائی کی فتح کا جشن منایا جاتا ہے۔ کچھ روایات میں یہ موسم سرما کے خاتمے اور نئے سال کی آمد کا نشان ہے جو تبتی کیلنڈر کے مطابق لوسار (Losar) سے ملتے جلتے ہے (لوسار کی تاریخ اگلے کالم میں پیش کی جائے گی)۔
تاریخی اور ثقافتی ذرائع سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جشن مے فنگ کی جڑیں ہندو مذہب سے نہیں بلکہ بون مذہب اور تبتی روایات سے ہیں۔ بلتستان میں ہندو اثرات کم ہیں کیونکہ یہ علاقہ تاریخی طور پر تبت چین اور وسطی ایشیا سے متاثر رہا ہے البتہ کچھ ذرائع میں یہ ذکر ہے کہ یہ بدھ مت کی ثقافت سے بھی جڑا ہو سکتا ہے مگر بنیادی طور پر یہ پری اسلامک اور پری بدھسٹ دور کا ہے اسلام کے آنے کے بعد بھی یہ تہوار ثقافتی شکل میں زندہ رہا کیونکہ بلتستان کے لوگوں نے اسے اپنی شناخت کا حصہ بنائے رکھا۔
جشن مے فنگ تین دن تک چلتا ہے مگر مرکزی تقریبات 21 دسمبر کی رات کو ہوتی ہیں لوگ بڑے بڑے الاؤ (bonfires) جلاتے ہیں مشعلیں تھام کر رقص کرتے ہیں اور بلتی موسیقی اور گانوں سے محفل سجائی جاتی ہے یہ الاؤ بدی کو جلانے اور اچھائی کی روشنی پھیلانے کی علامت ہوتے ہیں۔ خاندان اور کمیونٹی اکٹھی ہو کر روایتی کھانے جیسے بلتی پکوان تیار کرتے ہیں اور رقص کی محفلیں منعقد ہوتی ہیں یہ تہوار سردیوں کی سخت راتوں میں گرمی اور خوشی کا ذریعہ بنتا ہے اور لوگ اسے موسم سرما کے خاتمے اور بہار کی آمد کی علامت سمجھتے ہیں۔
سکردو میں یہ تہوار شہر بھر میں منایا جاتا ہے مگر سرفرنگاہ کولڈ ڈیزرٹ جیسے علاقوں میں اس کی رونق الگ ہے۔ سرفرنگاہ جو سکردو سے قریب ایک سرد صحرا ہے میں الاؤ جلانے اور رقص کی تقریبات خاص طور پر مشہور ہیں جہاں ٹھنڈی ریتوں پر آگ کی روشنیاں ایک خوبصورت منظر پیش کرتی ہیں۔ حالیہ برسوں میں سیاحتی ادارے اور مقامی ایسوسی ایشنز جیسے شیگر ٹورزم ایسوسی ایشن اسے منظم کرتی ہیں تاکہ ثقافت کو فروغ دیا جائے۔
یہ تہوار نہ صرف ثقافتی بلکہ سماجی اہمیت کا حامل ہے یہ بلتستان کے لوگوں کو اپنی قدیم روایات سے جوڑتا ہے اور نوجوان نسل کو ورثہ سکھاتا ہے جدید دور میں جب گلوبلائزیشن کی وجہ سے مقامی ثقافتیں خطرے میں ہیں، یہ تہوار ایک زندہ مثال ہے کہ کیسے لوگ اپنی جڑوں کو برقرار رکھتے ہیں۔ گلگت بلتستان ٹورزم ڈیپارٹمنٹ بھی اسے فروغ دیتا ہے تاکہ سیاحت بڑھے البتہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ غیر اسلامی روایات کا حصہ ہے مگر تاریخی طور پر یہ ایک ثقافتی تقریب ہے جو مذہبی سے زیادہ سماجی اور موسم سے منسلک ہے بلتستان میں اسلام کے پھیلاؤ کے بعد بھی یہ جاری رہا، کیونکہ یہ علاقے کی شناخت کا جزو ہے۔
خلاصہ یہ کہ جشن مے فنگ ایک قدیم تبتی اور بون مذہبی روایت ہے جو ہندو رسم نہیں بلکہ بلتستان کی مقامی ثقافت کا عکاس ہے یہ تہوار اچھائی کی فتح موسم کی تبدیلی اور کمیونٹی کی یکجہتی کی علامت ہے اور سرفرنگاہ سکردو جیسے علاقوں میں اس کی رونق دیکھنے لائق ہوتی ہے۔

