Kam Aqlon Ki Hukumat Sab Se Bara Azab
کم عقلوں کی حکومت سب سے بڑا عذاب

کہتے ہیں کہ عقل اگر آسمان سے برسے تو کم ظرف لوگ چھتریاں کھول لیتے ہیں۔ ہمارے ہاں یہ چھتریاں نسل در نسل وراثت میں چلی آ رہی ہیں۔ جن کے ابا پانی سے نہیں فضول وعدوں سے وضو کرتے تھے وہی آج قوم کی کشتی کے ملاح بن بیٹھے ہیں جو مسافروں سے بھری کشتی کو اپنی کم عقلی سے ڈوبانے کے لئے پوری کوشش کر رہے ہیں یہ کوئی معجزہ ہے یا اللہ کی مہربانی کہ ان کم عقلوں کا مشن پورا نہیں ہورہا ہے کہ قوم اور ملک آباد ہیں اور تباہی سے بچے ہوئے ہیں کم عقل حکمران صرف ایک فرد نہیں ہوتا، وہ ایک پورا عذاب ہوتا ہے جو اقتدار کے تاج میں چھپ کر قوم کی رگوں میں زہر کی طرح اترتا ہے۔
کم عقل حکمران جب آتے ہیں تو ہوا میں شور ہوتا ہے۔ امیدوں کے غبارے، وعدوں کے پتنگے اور نعروں کی بارش۔ لیکن جب کرسی پر بیٹھتے ہیں تو ہر طرف خاموشی چھا جاتی ہے۔
یہ کم عقل حکمران نہ صرف اپنی عقل کے قاتل ہوتے ہیں، بلکہ پوری قوم کی سوچ کو قید کر دیتے ہیں۔ ان کے فیصلے عقل سے نہیں، ضد سے ہوتے ہیں اور ضد کا دوسرا نام ہے: تباہی ان کے دور میں ملک گویا ایک بے دُم پرندہ ہوتا ہے اُڑنے کی خواہش تو رکھتا ہے، مگر سمت کا علم نہیں۔ قوم کی باگ ان کے ہاتھ میں ایک کھلونے کی طرح ہوتی ہے، جسے وہ کبھی دیوار سے مارتے ہیں، کبھی زمین پر گھسیٹتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں۔ یہ لوگ لندن کے اسکولوں میں اپنے بچوں کو "سوچنا" سکھاتے ہیں اور قوم کے بچوں کو بس اتنا سکھاتے ہیں چپ رہو اور یہ لو ایک لیپ ٹاپ پبلشنگ جی کھیلو ہماری حکمرانی میں کباب کی طرح ہڈی مت بنو۔
ان کے نزدیک عوام صرف ووٹ کی قطار ہے اور جمہوریت ایک ایسا کاغذ ہے جس پر ان کی نالائقی کی مہریں لگنی ہیں۔ جب ان سے سوال کرو، تو جواب نہیں، غصہ ملتا ہے۔ جیسے عقل ان کے لیے ایک گستاخ چیز ہو۔ یاد رکھیں جب بے عقل شخص حاکم بنے تو انصاف یتیم ہو جاتا ہے، علم بھکاری بن جاتا ہے اور قوم غلام! یہ حکمران اپنی نااہلی کے خنجر سے صرف ادارے نہیں کاٹتے یہ قوم کی امیدوں، نسلوں اور خوابوں کے گلے پر ہاتھ رکھتے ہیں اور تب، تب تاریخ خاموش نہیں رہتی۔ تاریخ پھر ان کے نام کے ساتھ لکھتی ہے یہ وہ لوگ تھے، جنہوں نے اقتدار کو تاج نہیں، ہتھوڑا سمجھا اور قوم کو اینٹ در اینٹ بجا کر پیچھے دھکیل دیا۔
یہ وہ حکمران ہیں جن کی تعلیم سے زیادہ ان کے سوٹ مہنگے ہوتے ہیں اور جو اپنی بیٹیوں، بیٹوں کو آکسفورڈ بھیج کر قوم کی بیٹیوں کے لیے مزاروں کے باہر وظیفے کےلئے رکھ چھوڑتے ہیں یا ڈرائیور بنا کر مستقبل تباہ کر دیتے ہیں انہوں نے قوم کی امیدوں کو تھوک کے بھاؤ بیچا ہے۔ نہایت شوق سے، وہ بھی کسی نیلام گھر میں جہاں ضمیر کی بولی سب سے کم لگتی ہے۔ یہ ان پڑھ نہیں پڑھے اَن سمجھے ہیں۔ فرق بس اتنا ہے کہ جاہل کہلانے سے وہ شرماتے ہیں، لیکن جہالت پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ اقبال کی شاہین ان کے دربار میں پنجرے کے اندر قید ہے اور نیچے نوٹنکی ہو رہی ہے ترقی کے ڈھول اور خوشحالی کی جھوٹی قوالی انہی کم عقلوں کے اطراف میں چند طلاق یافتہ ماسیاں اندھوں میں کانا راجا بن کر مزید انکی جھوٹی تعریفوں سے ان میں ہوا بھر رہی ہیں۔
قوم کا بچہ رکشے چلا رہا ہے، ان کا بچہ لندن میں ڈگری خرید رہا ہے۔ قوم کی بچی سلائی مشین پر بیٹھی ہے اور ان کی بیٹی فیشن شو میں کیٹ واک کر رہی ہے۔ ان کے لیے قوم محض نعرے بازی کا مواد ہے یا ہتھیار ہے اور ترقی ایک نیا قرض لینے کی سند۔ جب اقتدار ان کے ہاتھ آتا ہے تو یہ عقل کو دروازے پر ہی اتار کر اندر آتے ہیں جیسے کسی جھونپڑی میں تاج محل کی بات ہو رہی ہو۔ یہ لوگ دراصل انمول اندھے ہیں۔ بینائی نہیں رکھتے، بصیرت تو بہت دور کی بات ہے۔ کسی زمانے میں عقل و فہم حکومت کے تخت پر براجمان تھے، اب خوشامد، چاپلوسی اور کم علمی نے تخت سنبھال لیا ہے اور جو جتنا بڑا بیوقوف ہے، وہ اتنا ہی بڑا وزیر ہے۔
قوم کی قسمت کا قلم ان کے ہاتھ میں ہے اور سیاہی ختم ہو چکی ہے۔ اب جو کچھ لکھا جا رہا ہے وہ صرف دھند ہے، دھوکا ہے اور دلاسہ ہے۔ یہ لوگ کتاب نہیں پڑھتے کہ کہیں سوال نہ پیدا ہو جائے۔ انہیں آئین سے پرہیز ہے کہیں انصاف جاگ نہ جائے۔ ان کے نزدیک انسانیت ایک بورنگ مضمون ہے، جسے نصاب سے نکال دینا چاہیے۔ کوئی کہے، کوئی روئے، یہ صرف تالیاں بجاتے ہیں۔ نہ شرم، نہ حیاء، نہ احساس۔ جیسے ملک نہ ہو، کسی فلم کا سیٹ ہو اور یہ سب کے سب اداکار، جن کا مکالمہ ایک ہی ہے سب اچھا ہے
یاد رکھو! جب عقل جلاوطن ہو جائے تو حکمران گونگے نہیں، گونگا پن بانٹنے والے بن جاتے ہیں۔ وہ خاموشی جو قبروں میں ہوتی ہے، اس ملک کے اسکولوں، اسپتالوں، عدالتوں اور اسمبلیوں میں گونج رہی ہے اور شاید وہ وقت دور نہیں جب عوام کی خاموشی شور بنے گی ایسا شور جو تخت الٹ دے گا اور عقل پھر سے اپنے مقام پر بیٹھے گی۔

