Jashan e Azadi Mubarak
جشن آزادی مبارک

تمام پاکستانی نہیں چند محب وطن پاکستانیوں کو جشن آزادی مبارک یہ مبارک جیسے عموماََ رسمآ دی جاتی ہے میں بھی اسی انداز سے دے رہا ہوں کیونکہ میں آزاد نہیں ابھی بھی غلام ہوں۔
یوم آزادی کے کہنے کو 78 سال مکمل ہوئے ہیں اصل میں لوٹ مار کے اٹھتر سال بیت گئے ہیں ہر آنے والے نے تسلی سے اس ملک کو لوٹا، جائیدادیں بنائی اور اپنی آنے والی اٹھتر پیڑھیوں تک مال جمع کیا اور مزید کہ توقع اور امید رکھے کل پرچم کشائی کی تقریب میں پوری طرح مطمئن نظر آئیں گے اور قوم کو اپنی لوٹ مار کی کامیابی کی مبارکبادیں بھی دیں گے چہرے میں زرا بھی ندامت نہیں ہوگی بلکہ عجز و انکساری ٹپکتی نظر آئے گی اور کچھ لوگ نا چاہتے ہوئے بھی کہیں گے ماشاءاللہ، سبحان اللہ۔
چودہ اگست ہر سال ایک نئے عَلم، ایک پرانی تقریر اور ایک اور زیادہ خالی وعدے کے ساتھ آتا ہے۔ چاک و چوبند پریڈ، قومی ترانے کی اونچی آواز اور ٹی وی اسکرین پر رنگین پھولوں کی بارش یہ سب دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے یہ ملک واقعی اپنے بانیوں کے خواب کی تعبیر بن چکا ہو۔ مگر ٹی وی کی اس روشنی کے پیچھے اندھیرے کی جو گہری تہہ ہے، اس میں جھانکنے کی کسی کو فرصت نہیں۔
برس بیت گئے۔ پاکستان کے ہر ادارے کا حال چیک کر لیں اسٹیل ملز قبرستان میں دفن، ریلوے پٹری پر نہیں بلکہ پچھلے پچاس سال کے خسارے کے رجسٹر میں، پی آئی اے کا ہوائی جہاز اب گمان میں بھی بمشکل اڑتا ہے اور بجلی کا محکمہ ہر ماہ عوام کو جھٹکا دے کر اپنی بقاء ثابت کرتا ہے۔ مگر حیرانی کی انتہا یہ ہے کہ سٹاک ایکسچینج چھلانگیں مار رہی ہے۔ یہ کون سا معجزہ ہے؟ شاید معیشت کے قبر پر پھول اگانے کا نیا فارمولا ہم نے ایجاد کر لیا ہے۔
حکمران طبقہ، چاہے وردی میں ہو یا شیروانی میں، لوٹ مار کے اس کھیل کا پُرانا کھلاڑی ہے۔ جرنیل اور سیاستدان ایک ہی میز پر بیٹھ کر، ایک ہی چمچ سے اقتدار کا سوپ پیتے ہیں۔ کرپشن اب جرم نہیں، ایک قومی کھیل ہے اور جو اس میں پیچھے رہ جائے وہ بیوقوف سمجھا جاتا ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ یہ حکمران اب بھی 80 کی دہائی میں اٹکے ہوئے ہیں سوچ رہے ہیں عوام اب بھی وہی پرانی فلم کے سادہ تماشائی ہیں جو ڈھول کی تھاپ پر خوش ہو جائیں گے۔ مگر 80 کی دہائی کا فرق یہ ہے کہ اس وقت عوام کے پاس تھالی میں روٹی تھی، آج پلیٹ خالی ہے اور روٹی کا اشتہار بھی حکومت کے کنٹرول میں ہے۔ ہم آزاد ہوئے تھے تاکہ ایک ایسا ملک بنے جہاں انصاف، ترقی اور خودداری ہو۔ مگر ہمیں ملا ایسا پاکستان جو کاغذ پر جمہوری، حقیقت میں نیلام گھر ہے۔ یہاں سب کچھ برائے فروخت ہے پانی، زمین، ادارے، حتیٰ کہ قومی غیرت تک۔
چودہ اگست کا سورج جب اگلے برس طلوع ہوگا تو پھر اسی طرح پریڈ ہوگی اسی طرح قومی ترانے بجیں گے اور پھر اسی طرح سب کچھ وہیں کھڑا ہوگابس عوام کی جیب مزید ہلکی ہو چکی ہوگی۔ ہم پھر اسی انداز میں حسب روایت سبکو جشن آزادی مبارک کہیں گے اگر زندہ رہے تو جو حالات بنے ہیں اسمیں زندہ رہنا خواب جیسا ہے۔

