Jamhuriat Ka Janaza
جمہوریت کا جنازہ

یوں تو ہم نے آزادی کا خواب ایک اسلامی جمہوری فلاحی ریاست کے طور پر دیکھا تھا مگر آنکھ کھلتی ہے تو خواب کی تعبیر کسی اور قبرستان کی طرف جاتی دکھائی دیتی ہے۔ یہاں روز جمہوریت دفن ہوتی ہے آئین کا جنازہ پڑھا جاتا ہے اور عوام کو تسلی دی جاتی ہے کہ سب کچھ آئینی طریقے سے ہو رہا ہے انکے لفظ آئین کی گردان سے آئین لفظ بھی پریشان ہے یہ کیوں بار بار میری توہین کر رہے ہیں کہنے کو نام ہے اسلامی جمہوریہ پاکستان مگر نہ اسلام کہیں نظر آتا ہے نہ جمہوریت اور نہ ہی کوئی ایسا نظام جسے فلاحی کہا جا سکے۔ بس ایک خاکہ ہے جو ہر پانچ سال بعد نئے رنگ سے رنگا جاتا ہے اور ہر بار تماشہ ایک جیسا ہوتا ہے بس عوام ایک ہے جو اوہی کی وہی کھڑی ہے اور ان رنگوں سے معزوز ہو رہی ہے۔
انتخابات۔ وہ تو اب محض خانہ پُری ہیں ہر بار ایک نیا اسکرپٹ، نئے چہرے، نئی جیت کی ترتیب، مگر شکست ہمیشہ عوام کے نصیب میں۔ تازہ الیکشن تو جیسے جمہوریت پر آخری کیل تھا سترہ سیٹوں والے تاجدار اور ایک سو اسی والوں کو فاتحہ خوانی کے لیے چھوڑ دیا گیا اور اب نئی قسط مخصوص نشستوں کی بندر بانٹ آئینی طور پر یہ خواتین اور اقلیتوں کے لیے مخصوص تھیں، مگر اب یہ ریموٹ کنٹرول جمہوریت کے لیے مخصوص ہو چکی ہیں۔ جو جماعتیں میدان میں خاک چاٹتی رہیں، انہیں پارلیمنٹ میں ایسے لا بٹھایا گیا جیسے کسی یتیم خانے کے بچوں کو اچانک بادشاہ بنا دیا گیا ہو۔
یہ سب دیکھ کر نہ صرف جمہور کا جنازہ اٹھتا ہے، بلکہ جمہوریت خود کفن لپیٹ کر کہتی ہے مجھے میرے حال پر چھوڑ دو، میں بہت تھک چکی ہوں۔ سیاسی منظرنامہ ایک ویران اسٹیج بن چکا ہے جہاں صرف طاقت کی کٹھ پتلیاں رقص کرتی ہیں۔ عسکری زبان میں اسے غیر سیاسی عمل کہتے ہیں، عوامی زبان میں غیر جمہوری۔ بیوروکریسی میں بھی ہر کرسی پر کوئی نہ کوئی صاحبِ تمغہ یا سابق افسر براجمان ہے۔ نوجوان ڈگریاں ہاتھ میں لیے دہلیز دہلیز مارے مارے پھرتے ہیں اور یہاں ادارے ریٹائرڈ فائلوں سے بھرے پڑے ہیں عمر انکی ایسی ہے پاوں قبر کیطرف ہیں مگر نفس مزید اور اور کا تقاضا کرتا ہے۔
جمہوریت کا جنازہ خاموشی سے نہیں اٹھتا یہ چیخ چیخ کر کہتا ہے کہ یہ زمین میرے حصے میں تو آئی مگر اختیار کسی اور کا رہا نہ مکمل آمریت، نہ مکمل جمہوریت۔ یعنی نہ بندہ نہ پورا خسرہ بس ایک ایسا نظام، جو ہر طرف سے ادھورا، کمزور اور بے اصول ہے عوام کو بس اتنا حق دیا گیا ہے کہ وہ ووٹ ڈالیں اور پھر صبر سے اس کھیل کا انجام دیکھیں ان بدشکل بدکرداروں کی شکلیں دیکھ کر مجھے ارشد شریف کا وہ جملہ بار بار ذہن میں گونجتا ہے "اگر شیشے میں اپنی شکل اچھی نہیں لگتی تو شیشے کو نہ توڑو، اپنی شکل ٹھیک کرو"۔
مگر ہم روز شیشے توڑتے ہیں روز سچ بولنے والوں کو خاموش کراتے ہیں اور روز جمہوریت کے جنازے کو سلامی دے کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ اب تو جی چاہتا ہے کہ اگر ہم اس نظام کو بدلنے کے اہل نہیں، تو اس ملک کا نام ہی بدل دیں۔ "اسلامی جمہوریہ پاکستان" سن کر اب شرمندگی ہونے لگی ہے۔ اس کے بجائے اداروں کا جمہوری ماڈل چوروں کا قلعہ جیسا کوئی نام رکھ دیا جائے کم از کم نام اور نظام میں تضاد تو نہ ہو اور اسلامی جمہوریہ کی توہین بھی نہ ہو یہ ملک لاکھوں جانوں کی قربانی سے حاصل کیا گیا تھا۔ مگر قربانیاں آج بھی جاری ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے دشمن سرحد کے پار تھا، اب نظام کے اندر بیٹھا ہے اور ہم سب یا تو خاموش تماشائی ہیں، یا کفِ افسوس ملتے ہوئے مقتول جمہوریت کے جنازے میں شرکت کرنے والے۔

