Jabillat e Taqat, Makkari Ki Sarhadein Aur Zakham Khurda Ummat
جبلّتِ طاقت، مکّاری کی سرحدیں اور زخم خوردہ امت

طاقت کا اظہار انسان کی فطرت ہے اور جب یہ فطرت عقل کے تابع نہ رہے تو تباہی کا در کھلتا ہے۔ یہی جبلّت انسان کو امن کی راہ چھوڑ کر تسلط اور تباہی کی جانب دھکیلتی ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ جب طاقت کو اخلاقی حدود سے آزاد کر دیا گیا، تب دنیا نے فرعون دیکھے، چنگیز و ہلاکو دیکھے اور آج ان کے جدید چہرے اسرائیل، امریکہ اور ان کے حواریوں کی شکل میں ہمارے سامنے ہیں۔
غزہ جہاں انسانیت کی لاش پر اقوامِ متحدہ کے ضمیر دفن ہیں، وہ علاقہ نہیں رہا وہ ایک سوال بن چکا ہے۔ وہاں بچے صرف یتیم نہیں ہوتے، وہ گواہ بنتے ہیں اس انسانیت کے جنازے کے جسے اقوامِ عالم نے کندھا تک نہ دیا۔ غزہ میں اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے، وہ طاقت کی جبلّت کا ایسا عریاں اظہار ہے جس پر دنیا کی مہذب حکومتیں صرف "تشویش" کے بیانات دے کر خود کو بری الذمہ سمجھتی ہیں اور یہی وہ مکّاری ہے جس سے عالمی طاقتوں نے "آزادی" کے نام پر دنیا کو تقسیم کیا۔ فلسطینیوں کو ایک ایسی ریاستی خواہش میں دھکیلا گیا جس کا نقشہ آج بھی اقوامِ متحدہ کے ضمیر سے باہر نہیں آ سکا۔ طاقتوروں نے ایسی سرحدیں کھینچیں جن پر صرف خون بہتا ہے اور آنسو اگتے ہیں۔
دوسری جانب ایران ہے جو مزاحمت کی زبان بولتا ہے، جو اس طاقت کے عالمی توازن کو چیلنج کرتا ہے جسے مغرب نے اپنے مفادات کے گرد بُنا ہے۔ ایران کی خطے میں بڑھتی ہوئی سیاسی و عسکری طاقت، مغرب اور اسرائیل کے حلق میں پھنسے کانٹے کی مانند ہے۔ حالیہ دنوں میں ایران پر اسرائیل کے حملے، ایران کی جوابی کارروائیاں اور پھر اچانک عالمی برادری کی "امن پسندی جاگ اٹھنا سب اس بات کی علامت ہیں کہ طاقت کی جبلّت صرف کمزوروں پر نہیں، خود سرکشوں پر بھی بھاری پڑتی ہے۔
ایران کو تنہا کرنے کی عالمی کوششیں اس کی مزاحمتی پالیسی کو کچلنے کا حربہ ہیں، لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ مزاحمت کو دبایا جا سکتا ہے، مٹایا نہیں جا سکتا۔ اس سارے منظرنامے میں پاکستان کی حیثیت ایک خاموش تماشائی جیسی ہوگئی ہے۔ جسے نہ اپنے جغرافیے کا شعور ہے نہ اپنی روحانی میراث کا۔ ہمارے ہاں کے سربراہان جب غزہ پر بچوں کی لاشیں گرتی دیکھتے ہیں، تو صرف ٹوئٹ کرتے ہیں اور جب ایران پر حملہ ہوتا ہے تو صرف "تشویش" ظاہر کرتے ہیں۔ ہم امت کے جسم کا وہ عضو بن چکے ہیں جس میں خون کا بہاؤ بند ہو چکا ہے، جو صرف جنبش کرتا ہے، حرکت نہیں۔
طاقت کی جبلّت جب عالمی سیاست کی زبان بن جائے، تو پھر ظلم کو تحفظ اور مزاحمت کو دہشت گردی کہا جاتا ہے۔ فلسطین ہو یا ایران، دونوں اس فطری طاقت کی کشمکش کا شکار ہیں جس پر اخلاق، قانون اور انصاف کے پردے صرف دکھاوے کے لیے ڈالے جاتے ہیں۔ آج دنیا کو مکّاری سے کھینچی گئی ان سرحدوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے جو صرف جغرافیہ نہیں، انسانی شعور کو بھی تقسیم کر چکی ہیں۔

