Jaba Qalam Bik Jaye
جب قلم بک جائے

مجھے کسی پاگل سے گلہ نہیں مجھے اُن سے شکایت ہے جو پاگل نہیں ہوتے مگر سوچنے کے پیسے لیتے ہیں جن کے قلم کی روشنائی ضمیر سے نہیں، لفافے سے بھرتی ہے جن کی تحریر خبر نہیں، اشارہ ہوتی ہے اور وہ اشارہ وہی کرتا ہے جو زر کی زنجیروں میں جکڑا ہوتا ہے۔
جاوید چوہدری جیسے لوگ آج کل سچ بولنے سے نہیں، سچ تولنے سے پہچانے جاتے ہیں جب تول میں لفافہ بھاری ہو تو وہ مظلوم کو مجرم بنا دیتے ہیں اور جب قیمت اچھی ہو، تو وہ ظالم کو ترقی پسند اور دور اندیش لکھتے ہیں۔ یہ وہی چوہدری ہیں جنہیں عمران خان کا نوٹس عوامی ہمدردی لگتا تھا مگر شہباز شریف کا وہی نوٹس انتظامی بصیرت بن جاتا ہے۔ یہ فرق نہیں، یہ سودے بازی ہے جناب، یہ تبصرہ نہیں۔ یہ زر کی چھن چھنا چھن" کی صدا ہے وہ صدا جو رائے کے بھی پیسے لیتی ہے سوچنے سے پہلے اکاؤنٹ نمبر مانگتی ہے اور ضمیر کو قسطوں میں گروی رکھتی ہے آپ انہیں صحافی کہتے ہیں ہم انہیں ذہنی مزدور کہتے ہیں بکا ہوا قلم کہتے ہیں جو اپنی عقل کو کرایے پر بیچ دیتے ہیں اور حرف کو نیلامی کے اسٹیج پر رکھ کر بولی لگواتے ہیں۔
یاد رکھیے یہ وہ لوگ ہیں جو انقلاب کی راہ میں "تجزیہ" بن کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ یہ وہ ہیں جو زہر کو شہد کے برتن میں ڈال کر عوام کو پلاتے ہیں۔ یہ وہ ہیں جن کے الفاظ میں سچ نہیں، قیمت ہوتی ہے منافقت ہوتی ہے اور قیمت وہی طے کرتا ہے جو سچ کا خریدار نہیں بلکہ جھوٹ کا مالک ہوتا ہے آج اگر معاشرہ زوال کی طرف ہے تو اس کا سب سے بڑا سبب صرف سیاست دان نہیں۔ بلکہ وہ قلمکار بھی ہیں جنہوں نے سچ کے سر پر پگڑی باندھ کر اسے بکری بنا دیا اور یزید وقت کے دربار میں ذبح کر دیا۔ ایسے میں ہم جاوید چوہدری جیسے لوگوں سے کیا توقع رکھیں؟ یہ لوگ سوچنے کے پیسے لیتے ہیں لکھنے کے ریٹ ہوتے ہیں اور بولنے سے پہلے سکرپٹ چیک کرواتے ہیں۔
یہ وہ خاموش غلام ہیں جن کی غلامی کا انداز صرف اتنا مختلف ہے کہ ان کے ہاتھ میں ہتھکڑی نہیں قلم ہے۔ مگر یاد رکھنا چوہدری صاحب قلم بک جائے تو صفحہ بغاوت پر اُتر آتا ہے یہ کوئی دماغی خلل نہیں، یہ شعور کا بوجھل پن ہے یہ کوئی قلم کی لغزش نہیں، یہ ضمیر کی قیمت ہے چوہدری صاحب اگر پاگل ہوتے، تو ان کی تحریریں پاگل خانے کی دیواروں پر لکھی گئی بے ترتیب تحریروں جیسی ہوتیں۔
مگر افسوس، ان کے جملے تو بڑے ترتیب سے بکتے ہیں، ان کا مفہوم بڑے اہتمام سے خرید لیا جاتا ہے اور ان کی رائے کا رخ ہمیشہ اس سمت ہوتا ہے جہاں سے لفافہ آتا ہے۔ کہنے کو وہ صحافت کے گھوڑے پر سوار ہیں، مگر لگام کسی اور کے ہاتھ میں ہے۔ کبھی کسی امیرِ وقت کی مدح سرائی، تو کبھی کسی حکمراں وقت کی اندھی حمایت۔ یہ وہ ہی لوگ ہیں جن کے تبصرے بدلتے موسموں کی طرح رنگ بدلتے ہیں عمران کے لیے مہنگائی پر وزن دار نوٹس اور شہباز کے لیے "دور اندیشی کا اعلیٰ مظاہرہ۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب لاعلمی میں ہے؟ نہیں صاحب! یہ سب شعوری سوداگری ہے۔ یہ قلمکار وہ ہیں جو سوچنے سے پہلے لفافہ کھولتے ہیں، لکھنے سے پہلے ہدایات لیتے ہیں اور بولنے سے پہلے تنخواہ طے کرتے ہیں۔ ایسے لوگ رائے نہیں دیتے، بلکہ اسکرپٹ سناتے ہیں۔ جاوید چوہدری جیسے لوگ معاشرے کے شعوری مفلوج پن کا منہ بولتا اشتہار ہیں۔
یاد رکھیں لفافہ صحافت کا سب سے بڑا ہتھیار وہی لوگ ہوتے ہیں جو اپنے لفظوں کو بیچ کر یزید وقت کا دفاع کرتے ہیں اور ایسے لوگ کسی بھی انقلاب، کسی بھی بیداری کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہوتے ہیں کیا توقع رکھیں ایسے بکے ہوئے دماغ سے کہ وہ سچ بولے؟ جب ان کے لیے سچ بھی ایک فروختنی شے ہے۔

