Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shair Khan
  4. Istasna Ka Zehr Aur Riyasti Dhanche Ki Barbadi

Istasna Ka Zehr Aur Riyasti Dhanche Ki Barbadi

استثنیٰ کا زہر اور ریاستی ڈھانچے کی بربادی

قومیں اس وقت کمزور نہیں ہوتیں جب ان کے پاس وسائل کم ہوں بلکہ اس وقت بکھر جاتی ہیں جب ان کے حکمران اور طاقتور طبقات خود کو قانون سے بالاتر سمجھنے لگتے ہیں۔ تاحیات استثنیٰ جیسی سوچ دراصل مینارِ عدل کے دروازے پر لگا وہ زنگ آلود تالہ ہے جو نہ صرف انصاف کو قید میں رکھتا ہے بلکہ آنے والی نسلوں کی امیدوں کو بھی بے وسیلہ کر دیتا ہے۔ جب ایک معاشرے میں ایسے طبقات پیدا ہو جائیں جن پر قانون ہاتھ نہ ڈال سکے اور جب ان کی غلطیوں، کرپشن، نااہلی اور قومی جرم پر ہمیشہ پردہ ڈال دیا جائے تو پھر انصاف سانس لینا چھوڑ دیتا ہے طاقت کا یہ تکبر بتاتا ہے کہ کچھ لوگ انسان نہیں دیوی دیوتا ہیں جن کے آگے سوال کرنا بھی جرم ہے۔

ایسی سوچ قوموں کو اندر سے کھوکھلا کر دیتی ہے، فنکشنل ادارے مفلوج ہوتے ہیں، عوام میں بے یقینی پھیلتی ہے اور ریاست ایک تماشہ بن کر رہ جاتی ہے۔ تاحیات استثنیٰ دراصل وہ زہر ہے جو آہستہ آہستہ پورے سسٹم میں پھیل جاتا ہے۔ احتساب کا عمل مفلوج ہو جاتا ہے، غلطیاں اصلاح کی بجائے روایت بن جاتی ہیں۔ احتساب کرنے والے کمزور جبکہ احتساب سے بچنے والے مضبوط ہو جاتے ہیں۔

قوم کو بتایا جاتا ہے کہ یہ مقدس گائے ہیں، ان پر بات مت کرنا یوں سسٹم کمزور نہیں ہوتا بلکہ سڑ کر ٹوٹ جاتا ہے۔ قومیں ترقی اس وقت کرتی ہیں جب طاقتور سے سوال پوچھا جا سکے جب غلطی پر مواخذہ ممکن ہو اور جب انصاف کسی فرد کی خواہش نہیں بلکہ ایک اصول بن کر کھڑا ہو۔ تاریخ گواہ ہے استثنیٰ کبھی قوموں کو نہیں بچاتا جو قومیں اپنے حکمرانوں سے سوال نہیں کرتیں وہ آخر کار انہی حکمرانوں کی غلطیوں کا ایندھن بن جاتی ہیں۔

روم سے لے کر عثمانی سلطنت تک ہر طاقتور قوم اس وقت کمزور پڑی جب قانون کے تخت پر افراد کو بٹھا دیا گیا اور انصاف کو غلام بنا دیا گیا۔ جبکہ وہ قومیں جو انصاف کے سامنے سب کو برابر کرتی رہیں وہ آج بھی مضبوط ہیں کیونکہ وہاں غلطی پر پردہ نہیں ڈالا جاتا غلطی پر فیصلہ سنایا جاتا ہے۔ پاکستان کی کمزوریوں کی جڑ مقدس استثنیٰ ہمارے ہاں بھی کچھ طبقات ہمیشہ سے استثنیٰ کے حصار میں رہے کہیں طاقت کی بندوق فیصلہ کرتی ہے، کہیں وردی کا تقدس سوال روک لیتا ہے، کہیں پیسے کا زور زبانیں بند کرا دیتا ہے، کہیں سیاست کا جبر سچ کو دفن کر دیتا ہے اور عوام کو اسی ڈھول سے بہلایا جاتا ہے کہ یہ لوگ ملکی سلامتی کے تقاضوں کی وجہ سے سوال سے بالا ہیں۔ اصل میں یہ تقاضے نہیں بلکہ استثنیٰ کے پردے ہیں جو سچ کو چھپاتے بھی ہیں اور قوم کو تقسیم بھی کرتے ہیں۔ قومیں استثنیٰ سے نہیں احتساب سے بنتی ہیں قومیں اس وقت ایک بنتی ہیں جب سب قانون کے سامنے برابر ہوں استثنیٰ ختم ہو تو قوم مضبوط ہوتی ہے غلطی پر پردہ ہٹے تو سچ سامنے آتا ہے اور جب سچ سامنے آئے تو انصاف راستہ بناتا ہے۔ طاقتوروں پر ہاتھ ڈالنا قوم کو کمزور نہیں کرتا طاقتوروں کو ہاتھ نہ لگانا قوم کو ہمیشہ کمزور رکھتا ہے آخر میں ایک سوال

کیا ہم واقعی ایک مضبوط قوم بننا چاہتے ہیں اگر ہاں تو پھر تاحیات استثنیٰ جیسے بت کو توڑنا ہوگا کیونکہ جب تک غلطی پر پردہ رہے گا قومیں صرف بربادی لکھیں گی۔ استثنیٰ ایک ایسا خصوصی قانونی حق ہے جس کے تحت کچھ افراد یا اداروں کو مخصوص معاملات میں عام قوانین سے وقتی طور پر بچاؤ حاصل ہوتا ہے یہ بچاؤ اسی وقت تک جائز سمجھا جاتا ہے جب اس کا مقصد ذمہ داریاں بہتر نبھانا، آزادانہ فیصلے کرنا یا ریاستی نظام کو روانی سے چلانا ہو، مثلاً سفارت کاروں کو بیرونِ ملک کچھ قانونی استثنیٰ اس لیے دیا جاتا ہے تاکہ وہ سیاسی دباؤ سے آزاد رہ کر اپنا کام کر سکیں۔

پارلیمنٹیرین کو اظہارِ رائے کی آزادی کے لیے کچھ استثنیٰ ملتا ہے تاکہ وہ بے خوف ہو کر لوگوں کی بات رکھ سکیں لیکن جب یہی استثنیٰ احتساب سے بھاگنے، غلطیاں چھپانے یا طاقت کے ناجائز استعمال کے لیے ڈھال بن جائے تو پھر یہ قانون کے مقصد کی نفی اور قوم کے ساتھ دھوکہ بن جاتا ہے۔ استثنیٰ ضرورت کے تحت دیا جاتا ہے مگر اس کا غلط استعمال معاشرے کو کمزور کرتا اور انصاف کا گلا گھونٹ دیتا ہے۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari