Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shair Khan
  4. Iran Se Tail Ki Kharidari Kyun Mumkin Nahi?

Iran Se Tail Ki Kharidari Kyun Mumkin Nahi?

ایران سے تیل کی خریداری کیوں نہیں ممکن؟

دنیا بدل رہی ہے تیل اب محض ایندھن نہیں ایک ہتھیار ہے، طاقت ہے اور سب سے بڑھ کر ایک سیاسی ہتھکنڈہ ہے۔ جو ملک اسے بیچتا ہے وہ سودے کا مالک ہوتا ہے اور جو خریدتا ہے، وہ اکثر اپنی غیرت کے ساتھ قیمت چکاتا ہے۔ پاکستان بھی تیل خریدتا ہے، مگر قیمت صرف ڈالر کی نہیں، ضمیر کی بھی دیتا ہے۔ یہ سوال اکثر عام عوام کی زبان پر ہے جب ایران ہمارا پڑوسی ہے اور وہ ہمیں سستا تیل دینے کو تیار بھی ہے، تو ہم ہزاروں میل دور بیٹھے دشمنوں سے تیل کیوں خریدتے ہیں؟ مگر شاید عوام کو یہ نہیں معلوم کہ ہم تیل نہیں خریدتے، ہم منظوری خریدتے ہیں۔ ہم ایندھن نہیں لیتے، ہم اجازت لیتے ہیں۔

ہم اپنی جیب سے نہیں، اپنی خودداری سے ادائیگی کرتے ہیں ایران کی واحد غلطی یہ ہے کہ وہ آزاد خارجہ پالیسی رکھتا ہے۔ وہ امریکہ کے آگے جھکتا نہیں، اسرائیل کی بقا کو تسلیم نہیں کرتا اور اپنے وسائل پر اپنا حق مانگتا ہے۔ یہی اُس کا جرم ہے اور اسی جرم کی سزا اُسے عالمی پابندیوں کی شکل میں دی گئی ہے۔ پاکستان اگر ایران سے تیل خریدتا ہے تو وہ ایک ایسے مجرم کے ساتھ لین دین کرتا ہے، جو مغربی عدالت میں سزا یافتہ ہے اور پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو مغرب کی عدالت کو جج، وکیل اور قاضی مانتا ہے بلکہ اپنا آقا مانتا ہے جیسے اسکے بغیر انکی سانس تک بند ہوجائے

امریکی پابندیاں محض معاشی نہیں، یہ ذہنی غلامی کی زنجیریں ہیں۔ پاکستان کا نظامِ معیشت آئی ایم ایف کے رحم و کرم پر ہے، جس کی سانسیں بھی امریکی رضامندی کی نالی سے آتی ہیں۔ اگر ہم ایران سے تیل خریدتے ہیں تو ہمیں آئی ایم ایف کی جانب سے نافرمان قرار دیا جا سکتا ہے جیسے ایک بیٹا اپنے باپ کا حکم نہیں مانتا ہے تو باپ اسکو عاق کردیتا ہے یہی سیچویسن پاکستان کی ہے اور نافرمان کو بھلا کس چیز کا حق ہے؟ قرض؟ راحت؟ یا شاید زندگی؟ پاکستان کو تیل تو چاہیے، مگر وہ ایران سے نہیں، امریکہ کے زیرِ اثر خلیجی ریاستوں سے خریدتا ہے، جو ہمیں مہنگے داموں فروخت کرتی ہیں کیونکہ ہم ان کے لیے صرف ایک صارف نہیں، ایک غلام مارکیٹ ہیں۔

ایران سے تیل خریدنے کا مطلب صرف امریکہ کو ناراض کرنا نہیں، بلکہ سعودی عرب کو بھی نظرانداز کرنا ہے اور پاکستان کا خارجہ پالیسی کا سب سے بڑا ستون سعودی خوشنودی ہے۔ ہمیں تیل سے زیادہ ریال کی ضرورت ہے اور ریال کی شرط ہے ایران سے فاصلہ۔ اگر سعودی ریال کی شریان بند ہو جائے تو ہمارے مدرسے، ہماری تنظیمیں اور ہمارے مذہبی نعروں کا تیل بھی خشک ہو جائے گا۔ کہا جاتا ہے کہ ایران پر پابندیاں ہونے کے باعث ادائیگیاں ممکن نہیں۔ سوال یہ ہے کہ بھارت، چین، ترکی، سری لنکا، حتیٰ کہ روس، کیوں ایران سے تیل خرید لیتے ہیں؟ انہوں نے متبادل طریقے اپنائے، بارٹر سسٹمز بنائے، مقامی کرنسی میں ادائیگی کی۔ مگر پاکستان میں مسئلہ راستہ نہیں، نیت کا ہے۔ یہاں فیصلے قومی مفاد سے نہیں، فون کالوں سے طے ہوتے ہیں۔

اگر پاکستان واقعی آزاد ملک ہوتا، تو ایران سے سستا تیل خرید کر اپنے عوام کو ریلیف دیتا، مہنگائی کم کرتا اور بجٹ خسارہ قابو میں لاتا۔ مگر افسوس! ہم ایک ایسی ریاست ہیں جسے بجٹ بنانے کے لیے واشنگٹن کی پرچی کا انتظار ہوتا ہے، جس کا وزیرِ خزانہ بھی کسی اور کی ہدایات کا منتظر ہوتا ہے اور جس کے حکمران عوام کی نہیں، عالمی اداروں کی سننے کے پابند ہوتے ہیں۔ ایران سے تیل نہ خریدنے کی وجہ معاشی نہیں، اخلاقی ہے وہ اخلاقی پستی، جو ہمیں غلامی میں راس آ چکی ہے۔ ہمیں سستا تیل نہیں، مہنگی تابعداری عزیز ہے۔

ہمیں اپنا پیٹ کا ایندھن تو جلتا چاہیے، مگر اس کی آگ میں اگر خوداری جل جائے، تو کوئی بات نہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم یہ سوال خود سے کریں ہم کب تک عالمی بادشاہوں کے غلام رہیں گے؟ کیا ہم تیل کی قیمت میں اپنی خودداری بیچتے رہیں گے؟ اور آنے والی نسلوں کو بھی بتا دیں گے کہ ہماری بذات خود کوی نہ عزت ہے اور نہ مرضی کہنے کو ہم آزاد ہیں مگر اصل میں غلام ہیں یہ غلامی کب تک رہے گی اللہ جانے کون بشر ہے والی مصداق۔

یہ خطہ کبھی تہذیبوں کا گہوارہ تھا، آج غلامی کے نقشوں پر جھکا ایک بےنام سا خط بن چکا ہے۔ پاکستان کی حکمرانی وہ تاش کا پتہ بن چکی ہے جو ہر آندھی میں اپنا رخ بدل لیتی ہے، بس بازی کسی اور کے ہاتھ میں ہو۔ ابھی کل تک یہ ملک عوام کو خواب دکھا رہا تھا کہ خوشخبری! بلوچستان سے تیل نکل آیا، سندھ سے گیس کی نئی تہیں دریافت ہوئیں، خیبرپختونخوا سے تیل کی نہریں پھوٹنے کو ہیں مگر اب سوال یہ ہے کہ جب اپنے ملک کی زمین سے اتنا کچھ نکل رہا ہے تو سات سمندر پار سے مہنگا تیل خریدنے کی منطق کیا ہے؟

Check Also

Bani Pti Banam Field Marshal

By Najam Wali Khan