Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shair Khan
  4. Iran Israel Aur Makhdoosh Imaraten

Iran Israel Aur Makhdoosh Imaraten

ایران، اسرائیل اور مخدوش عمارتیں

تل ابیب میں شعلے لپک رہے تھے۔ اصفہان میں گرد و غبار نے آسمان چھپا دیا تھا۔ دنیا ایک نئی جنگ کے دہانے پر کھڑی تھی۔ لیکن جو کچھ زمین پر ہو رہا تھا، وہ کچھ بھی نہیں تھا اس عمارت کے مقابلے میں جو ہمارے ذہنوں میں دھڑام سے آ گری۔ وہی عمارت جو 80 کی دہائی میں ہمارے فکری قبرستانوں پر چپکے سے تعمیر کی گئی تھی۔

ایران اور اسرائیل اندر سے بھائی بھائی ہیں باہر سے ایک دوسرے کے دشمن یہ نظریاتی عمارت نہ کسی دستاویز پر مبنی تھی نہ کسی مخفی معاہدے پر نہ کوئی وکی لیکس اس کی گواہ تھی نہ کسی جاسوس کی رپورٹ۔ یہ ہمارے ذہن رسا کی تخلیق تھی۔ ایک وہم ایک خیال، ایک چالاکی جس سے ہم خود کو اور دوسروں کو خوش رکھنے کا کاروبار چلاتے رہے۔

اب جب ایران کے میزائل تل ابیب کو چھو گئے اور اسرائیلی ڈرون اصفہان میں گونجنے لگے، تو ایک لرزہ خیز سچائی نے ہمارے کندھوں پر دستک دی یہ سب کچھ اصلی بھی ہو سکتا ہے۔

ایران واقعی اسرائیل سے لڑ سکتا ہے؟ اسرائیل واقعی ایران پر حملہ کر سکتا ہے؟

ہمارے عقائد کے پرانے کمرے میں دراڑ آ چکی ہے۔

یہاں نقصان صرف اصفہان یا تل ابیب کو نہیں ہوا بلکہ لاہور، کراچی، ریاض اور قاہرہ جیسے شہروں کے ڈرائنگ روموں میں بھی صفِ ماتم بچھی ہوئی ہے۔ وہ جو سالہا سال سے اس خیال کو چوس رہے تھے کہ اصل کھیل اندر کا ہے وہ اب کھوئے کھوئے سے بیٹھے ہیں۔ نظریہ ٹوٹ جائے تو بہت دکھ ہوتا ہے خاص طور پر جب وہ نظریہ جھوٹ پر مبنی ہو۔

سب سے زیادہ خطرہ اب ان لاکھوں لوگوں کو ہے جو ذہنی طور پر انہی خیالی عمارتوں میں رہتے ہیں۔ ان کی دنیا سازشوں سے بنتی ہے اور انہی میں تحلیل ہو جاتی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ہر جنگ میں نیت کی چغلی کرتے ہیں ہر حملے کو ڈرامہ سمجھتے ہیں، ہر لاش کو فریب اور ہر میزائل کو فلمی سین۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا ہم ان مخدوش عمارتوں کو خالی کریں؟ یا پھر کوئی نیا جھوٹ تراشیں؟ کوئی اور نظریہ، کوئی اور تمثیل؟

شاید یہ کہ "اصل میں یہ جنگ بھی پلان کا حصہ ہے، ایک نیا ڈرامہ ایک نیا سیٹ آپ اور یوں ایک اور عمارت کھڑی ہو، بھائی بھائی سے بھی اونچی اتنی اونچی کہ دیکھنے والے حیرت سے اپنی ٹوپیاں سنبھالیں۔ مگر کچھ لوگ باز نہیں آتے۔ وہ آج بھی کہہ رہے ہیں یہ سب ملی بھگت ہے ایران اسرائیل اندر سے ایک ہیں۔

ارے بھائی اگر اتنے ہی ایک ہیں تو پھر ایک دوسرے کے فوجی اڈے کیوں نشانہ بنا رہے ہیں؟

ایسے لوگوں کو ہم جہلا کی فہرست میں کہاں رکھیں؟ ابوجہل بھی شرما جائے ان کی جہالت سے۔

نفرت، حسد اور سازشی تھیوریوں کا یہ وارث طبقہ نہ تحقیق کرتا ہے، نہ پڑھتا ہے، نہ سنتا ہے۔

بس بولتا ہے۔ ہر وقت۔ ہر حال میں۔

جھوٹ بولنا ان کے ایمان کا حصہ بن چکا ہے۔

یہ اسلام کے کپڑوں میں لپٹے شیطانی ذہن ہیں جو اپنے سچ کو قرآن سے زیادہ معتبر سمجھتے ہیں۔

ایسے لوگ ہمیں تباہ نہیں کریں گے، ہم خود کو ان سے تباہ کروائیں گے۔ کبھی وقت ملے تو اپنے دماغ کی بھی صفائی کر لیا کریں۔ وہاں کئی عمارتیں ایسی کھڑی ہیں جو زلزلے کے ایک ہلکے جھٹکے سے بھی گر سکتی ہیں۔ مسلمان مسلمان کے بغض سے بھرے ہوئے ہیں جبھی تو کافروں سے پٹ رہے ہیں اب وقت ہے ان بیماریوں سے نکلنے کا کینہ پروری دور کرنے کا نفرتوں کو ختم کرنے کا اور ایک دوسرے کو گلے لگانے ایک دوسرے کی مدد کرنے ای دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہونے کا ایک صف میں کھڑے ہو کر کفار کا مقابلہ کرنے کا اگر ابھی بھی ہم ایک دوسرے کے بغض سے نہیں نکلے تو دشمن ہمیں ایک ایک کرکے ٹھکانے لگائے گا اور ہماری آنے والی نسل ہمیں کبھی معاف نہیں کریگی یہ 80 کی دہائی کی منافقت سے نکل کر بھائی چارگی کو فروغ دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari