Intizar Ya Farar?
انتظار یا فرار؟

امتِ مسلمہ آج ایک ایسے نازک دور سے گزر رہی ہے جہاں الفاظ کی تلواریں نیام سے باہر ہیں مگر ہاتھ خالی دل مردہ اور ضمیر بے حس ہو چکے ہیں۔ فلسطین ہو، کشمیر، یمن، شام یا اب ایران، ہر جگہ ملتِ اسلامیہ کا لہو ارزاں ہو چکا ہے اور ہم؟ ہم اب بھی انتظار کے خول میں لپٹے، تعبیری خوابوں کے اندر گم ہیں۔ جہاد، جسے قرآن نے بلند ترین افصل ترین عمل قرار دیا اور نبی اکرم ﷺ نے امت کی بقا سے تعبیر فرمایا۔
آج اسے صرف بیانات میں محدود کر دیا گیا ہے۔ سوشل میڈیا کی جنگ، تقریروں کی گرمی اور جذباتی ویڈیوز کی اشاعت کو ہی شاید ہم نے جہاد کا نعم البدل سمجھ لیا ہے۔ بعض علماء کرام اور خود کو منتظرینِ امام۔ کہنے والے افراد، زبان سے تو کربلا کے وارث بنے پھرتے ہیں، لیکن میدان میں کہیں دکھائی نہیں دیتے۔ سوال یہ ہے کہ اگر واقعی امامِ وقت کی آمد پر یقین ہے، تو ان کی راہ ہموار کرنے کی عملی کوشش کہاں ہے؟ امام اس وقت آئیں گے جب امت جاگ چکی ہوگی جب ہر فرد اپنے نفس کے خلاف اور باطل کے خلاف برسرپیکار ہوگا۔
اگر ہم ابھی بھی غفلت میں ہیں تو ہمارا انتظار درحقیقت فرار کا ہے ایران اس وقت عالمی استعماری قوتوں کے نشانے پر ہے اور یہ کوئی اتفاقی بات نہیں ایران کا کھڑا ہونا مزاحمت کرنا اور عالمی طاقتوں کو للکارنا اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ صرف امام کا نام نہیں لیتے بلکہ عملی طور پر عمل پیرا ہیں مگر پاکستان کے علماء سے راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے نظر آتے ہیں جذباتی تقریریں فلسفہ جہاد پر لفظی گولہ باری کا منجھن بیچ رہے ہیں عملی طور پر زیرو ہیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ علماء، جو دن رات منبر پر ظہورِ امام کی دعائیں کرواتے ہیں، وہ جہاد کے عملی میدان میں کیوں نظر نہیں آتے؟
وہ نوجوان۔ جو مجالس میں نعرے لگاتے ہیں، وہ کہاں ہیں جب وقتِ عمل آ چکا ہے؟ اگر اب بھی خاموش رہے، تو پھر امام آئیں گے تو کس قوم کے لیے؟ کن یاروں کے ساتھ؟ وہ جو صرف حلوہ خوری کے عادی ہیں یا وہ جو حقیقی منتظر ہیں؟
امام جعفر صادقؑ فرماتے ہیں "جو شخص امامِ وقت کے ظہور کا منتظر ہے، اسے چاہیے کہ وہ خود کو اس قابل بنائے کہ امام کے ساتھ کھڑا ہو سکے اور جو اپنے زمانے کے طاغوت کے خلاف نہیں اٹھتا۔ وہ امام کا حقیقی منتظر نہیں۔ پس جو انتظار صرف مجلس میں بیٹھ کر دعائیں مانگنے کا ہے وہ سراسر دھوکہ ہے۔ جو منبر پر بیٹھ کر جذبات ابھارنے کا ہے مگر عمل صفر ہے، وہ نفاق ہے۔ جب تک عملی طور پر نہ ہو۔۔ ایران کے خلاف حملے کی تلواریں کھینچی جا چکی ہیں۔ اسرائیل کھلم کھلا دھمکیاں دے رہا ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادی ہر طرف سے گھیرا ڈالے کھڑے ہیں۔ ایسے میں ہماری خاموشی کیا کسی ایمان کی علامت ہے؟ یا ہماری بیانی تکرار شہداء کے خون کا مذاق بن چکی ہے؟
اگر اب بھی ہم نے وقت کی پکار نہ سنی اگر اب بھی میدانِ جہاد میں نہ نکلے اگر اب بھی فقط انتظار کا چادر اوڑھ کر سوئے رہے تو یاد رکھیں امام جب آئیں گے تو ان کی فوج میں ہمارا نام نہیں ہوگا۔
قلم کی طاقت سے انکار نہیں، مگر جب وقت تلوار کا ہو۔ تب قلم صرف دعوت کا ذریعہ ہو سکتا ہے دفاع کا نہیں آج کا وقت صرف لکھنے یا بیان دینے کا نہیں اٹھنے اور لڑنے کا ہے اور جو اس وقت بھی نہ اٹھا۔ وہ پھر ظہورِ امام کی امید کس بنیاد پر رکھتا ہے؟
یہ سوال اپنے قارئین کو چھوڑ کر جا رہا ہوں۔۔

