Imdad Ke Muntazir
امداد کے منتظر

قدرت جب خفا ہوتی ہے تو زمین و آسمان ہل کر رہ جاتے ہیں۔ حالیہ سیلاب نے ایک بار پھر انسان کو اس کی بے بسی، لاچاری اور مجبوری کا آئینہ دکھایا ہے۔ گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں میں موسلا دھار بارشوں کے نتیجے میں آنے والا سیلاب صرف پانی کی ایک لہر نہیں تھا، بلکہ زندگی، امید اور سہارا چھین لینے والا طوفان تھا۔
گلگت کی حسین وادیوں میں واقع جوتل گاؤں اس سیلاب کی زد میں آ کر مکمل طور پر اجڑ چکا ہے۔ یہ گاؤں جو کبھی ہری بھری فصلوں، پھلوں سے لدے درختوں اور سادہ مگر خوش باش زندگی کی علامت تھا، اب مٹی، پانی اور آہوں کا ایک ویران منظر پیش کرتا ہے۔ کھڑی فصلیں برباد ہو چکی ہیں، پھلدار درخت جڑوں سے اکھڑ چکے ہیں اور گھروں کی چھتیں، دیواریں اور صحن اب صرف ایک المناک یاد بن کر رہ گئے ہیں۔
جوتل کے باسیوں میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والا علاقہ علی بستی، استوری محلہ ہے، جہاں کے مکین آج دریا کے کنارے ٹینٹ لگا کر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ان کی حالت زار دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ ان کے ہاتھوں میں صرف دعائیں، آنکھوں میں آنسو اور دلوں میں امید کا ایک چراغ رہ گیا ہے۔ یہ لوگ وہی ہیں جنہوں نے اپنے پیاروں کو مرتے دیکھا، بہتے دیکھا، مگر اپنی غربت و بے بسی کے سبب کچھ نہ کر سکے۔ ان کے پاس نہ بچاؤ کے وسائل تھے، نہ ہجرت کا بندوبست اور نہ ہی وہ صدا جو حکومت کے بند کانوں تک پہنچ سکے۔
حکومتی بے حسی اور ریلیف کی کمی بدقسمتی سے اب تک کوئی بھی بڑا حکومتی نمائندہ، ادارہ یا امدادی کارواں متاثرہ علاقوں میں مکمل طور پر متحرک نہیں ہو سکا۔ کچھ وقتی دورے، کچھ رسمی بیانات اور ایک دو سوشل میڈیا پوسٹوں کے سوا، عملاً سیلاب زدگان کی داد رسی نہ ہونے کے برابر ہے۔ دریا کنارے بیٹھے معصوم بچے، بیمار بزرگ اور ہمت ہار چکی مائیں کس سے سوال کریں؟ کسے اپنا دکھ سنائیں؟ کون ہے جو ان کا سہارا بنے۔
یہ وقت بیانات، وعدوں اور رسمی نوٹسز کا نہیں بلکہ عملی اقدامات کا ہے۔ حکومتِ گلگت بلتستان، این ڈی ایم اے، پی ڈی ایم اے اور دیگر تمام متعلقہ اداروں کو فوری حرکت میں آنا چاہیے۔ علی بستی کے مکینوں کو ہنگامی بنیادوں پر خوراک، صاف پانی، طبی سہولیات، کپڑے اور رہائش فراہم کی جائے۔ جوتل گاؤں کی بحالی کے لیے ایک مربوط پلان مرتب کیا جائے تاکہ مستقبل میں ایسی تباہی کو کم کیا جا سکے میڈیا اور فلاحی اداروں کا کردار اس وقت میڈیا کو چاہیے کہ وہ ان متاثرہ علاقوں کی اصل تصویر قوم کے سامنے لائے۔ فلاحی ادارے جو دور دراز علاقوں میں کام کر رہے ہیں، ان کا رخ جوتل اور علی بستی کی طرف ہونا چاہیے۔ مخیر حضرات سے بھی اپیل ہے کہ وہ ان غریب، لاچار اور بے گھر انسانوں کی مدد کے لیے آگے بڑھیں۔
سیلاب ایک قدرتی آفت ہے، لیکن متاثرین کی داد رسی نہ کرنا ایک انسانی جرم ہے۔ جوتل کا نوحہ صرف ایک گاؤں کی کہانی نہیں بلکہ انسانیت، ریاستی ناکامی اور اجتماعی بے حسی کی تصویر ہے۔ آئیے، اس تصویر کو بدلیں۔ ان خاندانوں کو سہارا دیں، امید دیں اور یہ ثابت کریں کہ ہم ایک زندہ اور درد مند قوم ہیں
حالیہ سیلاب نے گلگت بلتستان کے کئی علاقوں کو شدید متاثر کیا ہے، لیکن جوتل گاؤں استوری محلہ علی بستی کی تباہی ایک دل دہلا دینے والا منظر پیش کر رہی ہے۔ قدرتی آفت نے اس خوبصورت بستی کو اجاڑ کر رکھ دیا۔ کھڑی فصلیں، پھلدار درخت، مکانات اور بنیادی سہولیات سب کچھ پانی کی بے رحم موجوں کی نذر ہوگیا۔
علی بستی، استوری محلہ کے رہائشی آج دریا کے کنارے بے یار و مددگار ٹینٹوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ان کے سر پر چھت نہیں، پیٹ میں روٹی نہیں اور بدن پر کپڑے تک بھیگے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ سب کچھ آنکھوں کے سامنے بہتا چلا گیا، مگر غربت و بے بسی نے ان کے ہاتھ باندھ رکھے تھے۔
یہ ایک ہنگامی صورتحال ہے۔ اگر بروقت ریلیف فراہم نہ کیا گیا تو یہ انسانی المیہ مزید گہرا ہو جائے گا۔ حکومت، فلاحی ادارے اور متعلقہ حکام سے پرزور اپیل ہے کہ فوری ایکشن لیں، امدادی سامان، خیمے، راشن اور طبی سہولیات مہیا کریں تاکہ متاثرین کی زندگیوں میں کچھ آس و امید واپس آ سکے۔
سیلاب نے اپنا کام کر دیا ہے، اب انسانیت کا امتحان ہے کہ وہ کیا کرتے ہیں۔

