Ikhlas, Eman Kamil Ho To Raste Khud Ba Khud Nikalte Hain
اخلاص، ایمان کامل ہو تو راستے خود بخود نکلتے ہیں

کبھی کبھی اللہ بندے کا اخلاص تولتا ہے، زبان نہیں، حسب و نسب نہیں، صرف دل کا تڑپتا ہوا کونا دیکھتا ہے۔ وہ کونا جہاں یادِ خدا سانسوں میں رچ بس گئی ہو، جہاں عشقِ نبی خوابوں کی نہیں، جاگتی آنکھوں کی حقیقت ہو۔ بلوچستان کی پیاسی زمین پر، ایک چرواہا نہ اس کا کوئی قبیلہ مشہور، نہ خاندان شاہی۔ نہ علم کا دعویٰ، نہ کوئی روحانی ورد، صرف ایک چیز ایک تڑپ ایک سادہ سی خواہش، کہ "کاش! مدینہ دیکھوں، کاش! اس در پر جا بیٹھوں جہاں کتے بھی نصیب والے ہوتے ہیں۔ سالہا سال بکریاں چراتے، چاندنی راتوں میں ستاروں سے باتیں کرتے، وہ چرواہا اپنا پیٹ کاٹ کر پیسے جوڑتا رہا۔ لوگوں نے ہنسا، کہا "تو اور مدینہ؟" وہ مسکرایا، کہا "ہاں، کیونکہ میرا رب سب کا ہے شاہوں کا بھی، چرواہوں کا بھی"۔
پھر اک دن قسمت نے کروٹ لی۔ وہی چرواہا، جو کبھی اپنے گاؤں سے باہر نہ نکلا تھا، شاہی خاندان کا مہمان بن گیا۔ بغیر جان پہچان، بغیر واسطہ، بغیر سفارش! لوگ حیران! میڈیا خاموش! سیاست گم صم! لیکن آسمان پر جشن تھا۔ کیونکہ یہ محبت تھی۔ یہ عشق کا کرشمہ تھا۔ اس چرواہے نے بتایا کہ خدا رتبہ نہیں دیکھتا، دل دیکھتا ہے اور نبی مہربان ﷺ کے در پر آنے کے لئے جیب نہیں، جذبہ درکار ہے۔ شاہی لوگ تو مہمان نوازی کرتے ہیں، مگر دل کا بادشاہ تو وہ چرواہا تھا، جسے اللہ نے اپنے گھر کا رستہ خود دکھا دیا۔
بعض لوگ زمین پر نہیں چلتے، وہ فرش پر بھی قدم رکھتے ہیں تو عرش کے در کھلنے لگتے ہیں۔ ایسے ہی کسی بے آواز، بے نشان چرواہے کا ذکر ہے جو بلوچستان کی خاک سے اٹھا اور مدینہ کی ہوا میں گھل گیا خاموشی سے، بغیر کسی سوشل میڈیا ٹیم، بغیر گروپ ویزا اور بغیر عمرہ پیکیج آپ نے اس چرواہے کی وڈیو دیکھی نہیں دیکھی تو دیکھیے گا۔ سوچنے کا مقام ہے کہ اس ویڈیو نے کتنے واعظوں، کتنے مولویوں، کتنے مبلغوں کی تقاریر کو بے اثر کر دیا۔ یہ وڈیو دل کو نہیں، روح کو جھنجھوڑ دیتی ہے۔ پندرہ سال بکریاں چرائیں۔ اجرت پہ۔ سال کے آخر میں جو کچھ ملا، بچایا۔ پاسپورٹ بنوایا۔ پانچ سال کچھ نہ ہو سکا، پاسپورٹ ختم۔
دوبارہ بنوایا۔ پھر کرونا آ گیا پاسپورٹ ہو یا دل، سب بند ہو گئے۔ پھر جب در کھلے تو پندرہ بکریاں بیچ کر، ہوٹل، ٹریول ایجنسی، گروپ اور ویزے کے جھنجھٹ سے آزاد، صرف ایک نیت اور ایک تڑپ کے ساتھ روانہ ہوگیا۔ اب یہاں سوال ہے، کہ مدینہ پہنچنے کا خواب وہی چرواہا کیوں دیکھتا ہے جس کے پاؤں میں جوتے بھی شاید ادھورے ہوں؟ ہمارے جیسے لوگ جو اسلامی بینکنگ میں قسطوں پر حج کی بکنگ کرتے ہیں، جو سیلفی اسٹک کے ساتھ طواف کرتے ہیں، جو عمرہ وی لاگ بناتے ہیں، ان کا عشق کیا ویریفائیڈ ہے؟ کیا وہ خالص ہے۔
یہ چرواہا سادہ لباس میں بغیر تعارف، بغیر کسی ہجوم کے مدینہ منورہ پہنچتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے سوشل میڈیا پر وائرل ہو جاتا ہے۔ لوگ سوال کرتے ہیں یہ فرشتہ ہے؟ یہ کہاں سوتا ہے؟ اسے کھانا کون دیتا ہے اور پھر دنیا کو معلوم ہوتا ہے نہ یہ فرشتہ ہے، نہ کسی عرب خاندان کا فرد۔ یہ تو بلوچستان کی پتھریلی زمین پر اگا ایک خوشبو دار پودا ہے۔ یہ تو اس پاکستان کی جھلسی ہوئی مٹی کا خوش نصیب ذرہ ہے، جس مٹی سے محبت کرو تو وہ تمہیں مدینہ پہنچا دیتی ہے عرب حیران، عجم ششدر۔ سب خدمت کے لیے دوڑے چلے آ رہے ہیں۔ یہاں کچھ لوگ سوال کریں گے کہ آخر اس کا راز کیا ہے؟ راز ہے اخلاص جس کی نہ کوئی یونیورسٹی ہے، نہ کوئی کورس، نہ کوئی سند۔ بس دل میں ہو ایک نیت کہ کسی طرح مدینہ پہنچوں کسی طرح وہ سبز گنبد اپنی آنکھوں سے دیکھ لوں۔
آج اس بابا جی کو اہل عرب حج کے لیے بلا رہے ہیں۔ یہ وہ اعزاز ہے جو نہ وزیر اعظم کے پروٹوکول میں ہے، نہ کسی مفتیِ اعظم کے بیان میں اور افسوس، یہی چرواہا ہمارے معاشرے میں روز ذلیل ہوتا ہے۔ یہی بابا جی جب کوئٹہ کی گلیوں میں بکریاں چراتے تھے تو شاید کوئی گالی دے کر آگے نکل جاتا۔ لیکن مدینہ میں داخل ہوتے ہی اسی چرواہے کا چہرہ عشقِ مصطفی ﷺ کا آئینہ بن گیا۔ دنیا نے سر جھکا لیا۔ اب جو لوگ صحابہ کرامؓ کی شان پر سوال اٹھاتے ہیں، جو اُن کے عشق کو فقط ایک تاریخی حقیقت سمجھتے ہیں انہیں یہ چرواہا آئینہ دکھاتا ہے۔
ذرا سوچیں یہ محض ایک عاشق رسول ہے اور اللہ نے اس کی ویڈیو دنیا کو دکھا دی، اسے عزت دے دی، عرب کے شیوخ کو اس کے قدموں میں ڈال دیا تو صحابہ کرام کا مقام کیا ہوگا؟ جن کے لیے قرآن نے اعلان کر دیا: اللہ ان سے راضی، وہ اللہ سے راضی اور وہ عظیم لوگ، جن کے قدموں کی خاک بھی ہمیں نصیب ہو جائے تو ہماری زندگی سنور جائے آخری بات یہ دنیا ویڈیو، شہرت اور وائرل ہونے کی دنیا ہے، لیکن اخلاص وہ چیز ہے جو کسی کیمرے کی محتاج نہیں۔ اللہ جب راضی ہو جائے تو چرواہے کو بھی مہمانِ رسول ﷺ بنا دیتا ہے۔
دعا ہے کہ ہم سب کو بھی ایسا اخلاص، ایسی سادگی اور ایسی تڑپ نصیب ہو جو ہمیں بھی مدینہ کے در پر پہنچا دے، چاہے ہمارے پاس ہو یا نہ ہو، بس دل میں عشق ہو اور قدموں میں عاجزی۔

