Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shair Khan
  4. Hasad Qabeel Se Qarya e Alam Tak

Hasad Qabeel Se Qarya e Alam Tak

حسد قابیل سے قریۂ عالم تک

کہانی بہت پرانی ہے زمین ابھی نئی تھی، پہاڑ کم سن تھے، دریا ابھی دھیرے دھیرے اپنا راستہ تلاش کر رہے تھے۔ آسمان کی نیلاہٹ کچی تھی اور انسان ابھی زمین پر اپنے پہلے قدموں کی چاپ سن رہا تھا۔ انہی دنوں ایک بھائی نے دوسرے بھائی کو دیکھا اور دل میں ایک چبھن اتر گئی۔ چبھن بڑھ کر کڑواہٹ بنی، کڑواہٹ زہر میں بدلی اور زہر ہاتھ میں پتھر بن گیا۔ وہ پتھر ہابیل کے سر پر پڑا اور زمین پہلی بار خون سے تر ہوگئی۔ اس دن سے حسد کا بیج زمین کے سینے میں بو دیا گیا۔

حسد ہمیں جو وراثت میں ملا یہ کیسے ختم ہوگا بظاہر تو یہ نظر آرہے ہے یہ حسد ختم نہیں ہوگا بلکہ یہ حسد سب مسلمانوں کے نیک اعمال کو ضرور ختم کرکے رہے گا کیونکہ آج ہر چھوٹا بڑا عالم جاہل سب اس بیماری غرق ہیں۔ حسد ایک منفی عمل ہے جس میں ایک انسان کسی دوسرے انسان کو عطا کی گئی نعمتوں، کامیابیوں، عروج اور خوشیوں کو دیکھ کر نہ صرف نا پسندیدگی کا اظہار کرتا ہے بلکہ اس کے چھن جانے کی بھی خواہش کرتا ہے۔ یہ ایک ایسا برا عمل ہے جس کی وجہ سے تمام نیک اعمال تلف ہو جاتے ہیں اور اللہ تعالٰی حسد کرنے والے سے اچھے اور صالح کام کرنے کی توفیق بھی چھین لیتے ہیں۔

یہ حسد ہمیں ورثے میں ملا ہے جبکہ اس وقت نہ لوگوں کا ہجوم تھا نہ رنگینیاں تھیں دو بھائی تھے ایک کی قربانی قبولیت کو پہنچی دوسرے کے دل میں اسکے لئے انتقام کی آگ بھڑک اٹھی حاسد نے شاکر کی زندگی ختم کرنے کی ٹھان لی اور آخر اس نے وہ کچھ کر دکھایا جو کرنے کو نہیں تھا وہ معزز کیوں ہوا اور میں کمتر کیوں؟ بس کہانی وہاں سے حسد کی ایسی چلی آج گھر دفتر، کچن سکول کالج کوئی ایسی جگہ نہیں بچی ہے جہاں یہ بیماری نہ ہو وہ عالم دین بھی اس بیماری کا شکار ہیں جو اپنے واعظوں میں اس بیماری سے دوسروں کو بچنے کی تلقین کرتے ہیں مگر خود بچ نہیں پاتے کہنے اور عمل کرنے میں بڑا فرق ہے ہمارے علماء میں اسی چیز کی کمی ہے وہ جو کہتے ہیں خود نہیں کرتے اسلئے انکی کسی بات کا اثر سننے والوں پر نہیں ہوتا۔

قابیل کا وہ وار صرف ہابیل پر نہیں تھا یہ انسانیت کے سینے پر پہلا زخم تھا اور تب سے ہم سب اس زخم کے وارث ہیں۔ یہ زخم نہ مندمل ہوا، نہ کم ہوا، بلکہ نسل در نسل بڑھتا گیا۔ کبھی تاج کے لیے، کبھی زمین کے لیے، کبھی مذہب کے لیے، کبھی محض ایک ہلکی سی مسکراہٹ کے پیچھے چھپے زعم کے لیے۔ آج ہم کہتے ہیں حسد ایک بیماری ہے۔ مگر یہ صرف بیماری نہیں، یہ ایک وراثتی قرض ہے جو ہم ہر نئی نسل کو منتقل کرتے ہیں۔ ایک ماں اپنی بیٹی کو اچھے اخلاق کا درس دیتی ہے، مگر ساتھ ہی دل میں بہو کے حسن پر چبھتا ہوا کانٹا بھی رکھ دیتی ہے۔ ایک استاد شاگرد کو نصیحت کرتا ہے مگر دل میں دوسرے شاگرد کی کامیابی کا کھٹکا دبائے رکھتا ہے۔ ایک پڑوسی دوسرے کے صحن میں آنے والی خوشبو سے جلتا ہے، حالانکہ اس خوشبو کا ذائقہ کبھی اس کی زبان پر نہیں آیا۔

اسلام نے اس زہر کا علاج بتایا ہے، مگر ہم نے اسے دوا کے بجائے تعویذ بنا کر طاق پر رکھ دیا۔ قرآن نے کہا "وَمِن شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَد

اور حسد کرنے والے کے شر سے جب وہ حسد کرے۔

نبی ﷺ نے فرمایا حسد سے بچو، کیونکہ حسد نیکیوں کو ایسے کھا جاتا ہے جیسے آگ لکڑی کو کھا جاتی ہے۔

حسد کا علاج تین لفظوں میں ہے شکر، دعا اور قناعت۔

شکر کہ اللہ نے تمہیں جو دیا ہے، وہ تمہارے لیے خاص ہے۔

دعا کہ دوسرے کو جو دیا گیا، اس میں مزید برکت ہو۔

قناعت کہ دل کا سکون کسی دوسرے کے نقصان میں نہیں، اپنے نصیب پر راضی رہنے میں ہے۔

قابیل کو اگر یہ سمجھ آجاتی تو زمین کا پہلا خون نہ بہتا اور اگر ہم یہ سمجھ لیں تو شاید آج کی دنیا کے لاکھوں خون رک جائیں۔ مگر سوال یہی ہے ہم میں سے کون ہے جو یہ واراثتی زہر اپنے دل سے نکالنے کا حوصلہ رکھتا ہے؟

Check Also

Bani Pti Banam Field Marshal

By Najam Wali Khan