Hamen Bhi Wazir Bana Do
ہمیں بھی وزیر بنا دو

کسی بادشاہ کا ایک عزیز ترین حجام تھا جو روزانہ بادشاہ کے پاس حاضر ہوتا تھا اور دو تین گھنٹے اس کے ساتھ رہتا تھا، اس دوران بادشاہ سلطنت کے امور بھی سرانجام دیتا رہتا اور حجامت اور شیو بھی کرواتا رہتا تھا۔ ایک دن نائی نے بادشاہ سے عرض کیا حضور میں وزیر کے مقابلے میں آپ سے زیادہ قریب ہوں، میں آپ کا وفادار بھی ہوں، آپ اس کی جگہ مجھے وزیر کیوں نہیں بنا دیتے" بادشاہ مسکرایا اور اس سے کہا میں تمہیں وزیر بنانے کیلئے تیار ہوں لیکن تمہیں اس سے پہلے ٹیسٹ دینا ہوگا"۔
نائی نے سینے پر ہاتھ باندھ کر کہا آپ حکم کیجئے بادشاہ بولا "بندرگاہ پر ایک بحری جہاز آیا ہے، مجھے اس کے بارے میں معلومات لا کر دو نائی بھاگ کر بندرگاہ پر گیا اور واپس آ کر بولا "جی جہاز وہاں کھڑا ہے بادشاہ نے پوچھا یہ جہاز کب آیا نائی دوبارہ سمندر کی طرف بھاگا، واپس آیا اور بتایا دو دن پہلے آیا بادشاہ نے کہا یہ بتاؤ یہ جہاز کہاں سے آیا نائی تیسری بار سمندر کی طرف بھاگا، واپس آیا تو بادشاہ نے پوچھا جہاز پر کیا لدا ہے نائی چوتھی بار سمندر کی طرف بھاگ کھڑا ہوا۔
قصہ مختصر نائی شام تک سمندر اور محل کے چکر لگا لگا کر تھک گیا، اس کے بعد بادشاہ نے وزیر کو بلوایا اور اس سے پوچھا کیا سمندر پر کوئی جہاز کھڑا ہے وزیر نے ہاتھ باندھ کر عرض کیا جناب دو دن پہلے ایک تجارتی جہاز اٹلی سے ہماری بندرگارہ پر آیاتھا، اس میں جانور، خوراک اور کپڑا لدا ہے، اس کے کپتان کا نام یہ ہے، یہ چھ ماہ میں یہاں پہنچا، یہ چار دن مزید یہاں ٹھہرے گا، یہاں سے ایران جائے گا اور وہاں ایک ماہ رکے گا اور اس میں دو سو نو لوگ سوار ہیں اور میرا مشورہ ہے ہمیں بحری جہازوں پر ٹیکس بڑھا دینا چاہئے بادشاہ نے یہ سن کر حجام کی طرف دیکھا اور اس سے پوچھا کیا تمہیں حجام اور وزیر کا فرق معلوم ہوا حجام نے چپ چاپ استرا اٹھایا اور عرض کیا جناب بادشاہ سلامت کلماں چھوٹیاں رکھاں کہ وڈیاں۔
اس لئے کہتے ہے ہر شخص کی اپنی اپنی مہارت ہوتی ہے جس میں وہ بندہ خود ماہر ہوتا ہے اور ھمارے ملک میں بھی کچھ لیڈر اسی طرح ہی کام سرانجام دے رہے ہیں جنہیں کچھ پتا ہی نی ہوتا روز ٹی وی میں آکر ٹاں ٹاں کرتے نظر آتے ہیں۔ اصل حقیقت سے بے خبر سیاسدانوں کو سوائے کرپشن کے کچھ نظر نہیں آتا پوری فکر پوری توجہ جس کی کریپشن اور کمیشن پر ہو انہیں کیا غرض کہ ملک کس اور اس کے باسی کس خطرناک صورتحال سے دوچار ہیں۔
بھوک افلاس غربت لوگوں کے مسائل سے انکا کیا لینا دینا بس حضور کا شوق کمیشن اور حرام خوری میں کسی طرح رکاوٹ نہیں آنی چاہئے گزشتہ چالیس سال کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو مملکت خداداد میں کرپشن اور کمیشن کو اہمیت دی گئی ہے ملک کی ترقی اور غریبوں کی فلاح و بہبود کے لئے کچھ بھی نہیں کیا گیا یعنی سرے سے نظر انداز کردیا گیا۔ آج نوبت یہاں تک پہنچی کہ غریب عوام آٹے کے تھیلے کے لئے در بدر ہو رہی ہے جبکہ چالیس سال سے لوٹنے والے اشرافیہ ان مرتے لوگوں کا تماشہ دیکھ رہے ہیں مگر افسوس اس بات کا ہے کہ ہماری قوم کو ان علی بابا چالیس چوروں کی سمجھ آج بھی نہیں ہے بڑے فخر سے آج بھی سینہ تانے ان ہی چوروں کی خوشامدی کرتے نظر آرہے ہیں۔
بہت تحقیق کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ہماری قوم کا کوئی نظریہ نہیں نظریہ ضرورت ہماری سوچ کا حصہ بن چکی ہے وقتی مفاد کو ہم نے اپنی ضرورت سمجھا ہے جو کہ سراسر دھوکے کا سودا ہے جب تک ہماری سوچ نہیں بدلے گی ہم ان علی بابا چالیس چوروں کے ہاتھوں زلیل ہوتے رہیں گے انکی نسل لندن اور امریکہ میں عیاشیاں جبکہ ہماری نسل انکے بچوں کی غلامی کے گرد گھومتے گزرے گی۔ یہ سفر یوں ہی چلتا رہے گا کوئی جتنی مرضی تبدیلی کے نعرے لگائے غلام قوم کا نقطہ مرکز نقطہ سوچ و فکر غلامی ہی رہے گا۔ ہم اللہ سے دعا گو ہیں کہ اس پست قوم کی سوچ بدل دے اپنے بچوں کی آزادی کی سوچ دیدے چوروں کی غلامی سے نکلنے کی سوچ دیدے۔ دعا ہم نے بڑی عاجزی سے کردی ہے اب اسکی قبولت جانے اور خدا جانے۔

