Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shair Khan
  4. Hamare Andar Ka Chor Zinda Hai

Hamare Andar Ka Chor Zinda Hai

ہمارے اندر کا چور زندہ ہے

مکہ مکرمہ وہ زمین جہاں ہر سانس عبادت ہے، ہر قدم رحمت ہے جہاں پتھر بھی تسبیح کرتے ہیں جہاں در و دیوار پر سجدوں کی خوشبو بسی رہتی ہے یہی وہ مقام ہے جس کے بارے میں فرمایا گیا کہ یہاں نیکی کا ثواب کئی گنا بڑھ جاتا ہے اور اسی جگہ اگر کوئی برائی کرے تو اس کی قباحت بھی کئی گنا بڑھ جاتی ہے لیکن افسوس! انسان جب حرص کے اندھے کنویں میں اتر جائے جب دل سے نورِ ایمان کا چراغ بجھنے لگے جب کردار کی بنیاد کمزوری میں تبدیل ہو جائے تو پھر وہ وہیں بھی برائی کر گزرتا ہے جہاں فرشتے بھی ادب سے پر جھکا لیتے ہیں۔

حالیہ واقعہ جہاں حرم شریف میں مرمتی کام کے دوران الیکٹریشن فورمین اور ایک مزدور ہائی ٹرانسمیشن کیبل چوری کرتے ہوئے پکڑے گئے صرف ایک جرم نہیں یہ پوری امت کے کردار پر سوال ہے۔ یہ صرف تانبے کی تار نہیں تھی یہ ہماری اجتماعی اخلاقیات کا چہرہ تھا اور وہ چہرہ کیسا شرمندہ کیسا بے نور نظر آیا! ان خطرناک تاروں کے گچھے اس شخص نے اپنی کمر سے باندھ رکھے تھے شاید اس نے سوچا ہو چند ریال چند لمحوں کی لالچ بس ایک چوری پھر سب ٹھیک۔ مگر وہ یہ بھول گیا کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں دل کی دھڑکن بھی اللہ کی نظر سے اوجھل نہیں ہوتی۔ یہ وہ معتبر جگہ ہے جس میں زائرین رو رو کر توبہ کرتے ہیں مگر کوئی اسی مقام پر چوری کرے تو یہ گناہ سے بڑھ کر بے حسی کی علامت ہے۔

ہم کہتے ہیں ہم مسلمان ہیں، مگر ہمارا عمل ہمارا ساتھ نہیں دیتا زبان اللہ اللہ میں مشغول اور ہاتھ شیطانی راستے پر ہم دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم امتِ محمد ﷺ سے ہیں، مگر کردار میں وہ جھلک کہاں؟ وہ حیا کہاں وہ خوف کہاں؟ آج جب ایک مسلمان کی ایسی حرکت دنیا نے دیکھی یقین کریں دل لرز گیا۔ شرمندگی سے کپکپی طاری ہو جاتی ہے کہ جب یہ منظر غیر مسلم دیکھتا ہوگا تو اس کے ذہن میں اسلام کے بارے میں کیا خیال آتا ہوگا؟ کیا وہ کہے گا یہ وہ امت ہے جسے امانت دار کہہ کر نبی ﷺ فخر کرتے تھے؟ کیا وہ کہے گا یہ وہ قوم ہے جو صدقہ اور سچائی کی وارث تھی یا پھر وہ سوچتا ہوگا کہ اگر حرم میں یہ حرکت ہے تو باقی جگہوں پر کیا ہوگا؟

یہ سوچ دل کو کاٹ کر رکھ دیتی ہے اصل مسئلہ یہ نہیں کہ ایک شخص نے تار چوری کی اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے اندر کا چور زندہ ہے اور ضمیر مر چکا ہے اصل مسئلہ یہ ہے کہ برائی عام ہو چکی ہے اور شرم غیر حاضر مسلسل فعل حرام کرتے کرتے لوگ حلال حرام اور اچھی برائی کی تمیز سے عاری ہوچکے ہیں اب مقدس جگہ میں بھی جرم کرتے زرا بھی نہیں جھجھکتے نیز اصل درد یہ ہے کہ لوگوں کے دل گناہ سے سخت ہو گئے ہیں، آنکھیں بے حیائی کی عادی ہو چکی ہیں اور ہاتھ حرام کی طرف بڑھتے ہوئے کانپتے نہیں ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ معاشرے میں شیطانی کام رواج پا رہے ہیں اور انہی کو پروموٹ کیا جا رہا ہے۔

حرمتیں پامال ہو رہی ہیں، مگر دل پر جوں تک نہیں رینگتی نصیحت سنائی گئی تو ہنسی اڑائی جاتی ہے روکنے والا پرانے خیال کا کہلا کر نظرانداز کر دیا جاتا ہے یہ واقعہ ہمیں جھنجھوڑنے آیا ہے یہ محض ایک خبر نہیں یہ ایک آئینہ ہے اپنی شکل اس میں دیکھیں اور فیصلہ کریں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں ایک مسلمان اور ایسی گری حرکت ڈوب مرنے کا مقام ہے۔

اے اللہ! ہم کمزور ہیں مگر تیری رحمت سے مایوس نہیں تو ہمیں حرام سے بچا ہمارے دلوں میں حیا اور خوفِ خدا واپس ڈال ہماری نسلوں کو حلال کی محبت اور حرام سے نفرت کا وصف عطا کر اور ہمیں وہ کردار لوٹا دے جس سے اسلام پہچانا جاتا تھا جس سے مسلمان پہچانا جاتا تھا۔ آخر میں ایک بات، جرم فرد کا ہوتا ہے مگر اس کی شرمندگی پوری امت کو جھیلنی پڑتی ہے اور جب جرم حرم کی حدود میں ہو، تو یہ شرمندگی کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ ہمیں بدلنا ہوگا اپنے آپ کو بھی، اپنی سوچ کو بھی اپنی سماجی اقدار کو بھی ورنہ کل تاریخ ہمارے بارے میں یہی لکھے گی یہ وہ لوگ تھے جو مسلمان کہلانے پر فخر کرتے تھے، مگر کردار سے خود ہی اپنے اسلام کا جنازہ نکالتے تھے اللہ ہمیں سیدھے راستے پر چلائے۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan