Garg e Aashti Aik Sabaq Amoz Haqiqat
گُرگِ آشتی ایک سبق آموز حقیقت

دنیا کی تاریخ میں ہمیشہ طاقتور اور کمزور کا تصادم رہا ہے۔ قدرت کے اصول بھی کچھ ایسے ہی ہیں کہ بقا ہمیشہ اسی کی ہوتی ہے جو طاقتور ہو، لیکن کیا یہ اصول انسانوں پر بھی لاگو ہوتا ہے؟ شاید نہیں، کیونکہ انسان اشرف المخلوقات ہے اور اشرف المخلوقات ہونے کا تقاضا ہے کہ ہم ہمدردی، انصاف اور ایثار جیسے جذبات سے کام لیں۔ مگر افسوس کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔
فارسی کا ایک مشہور استعارہ "گرگِ آشتی"، یعنی وہ بھیڑیے جو سخت سردی میں شکار نہ ملنے پر آپس میں ایک دوسرے کو گھورنے لگتے ہیں اور جونہی کوئی کمزور ہو کر گر جاتا ہے، باقی سب اس پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ یہ منظر صرف جنگلوں میں ہی نہیں، بلکہ ہمارے معاشرے میں بھی قدم بہ قدم یہ منظر دکھائی دیتا ہے۔ ہمارے ہاں کمزوروں کو سہارا دینے کے بجائے انہیں مزید دبایا جاتا ہے جو شخص مالی طور پر پریشان ہو، اسی کو مزید قرضوں اور دھوکہ دہی میں پھنسا دیا جاتا ہے۔ جو بے روزگار ہو، اس کا استحصال ہوتا ہے۔ جو مظلوم ہو، اسے انصاف کے بجائے مزید مشکلات دی جاتی ہیں۔
سیاست، معیشت، کاروبار، ہر جگہ یہی اصول چل رہا ہے کہ جو جتنا ناتواں ہے، وہ اتنا ہی ظلم سہنے کے لیے مجبور ہے۔ ہمارے ملک میں غربت روز بروز بڑھ رہی ہے اور اس کا سب سے زیادہ فائدہ وہ مافیا اٹھا رہے ہیں جو غریبوں کو مزید دباتے ہیں۔ مہنگائی میں اضافہ ہو رہا ہے، مگر تنخواہیں وہیں کی وہیں ہیں۔ عام آدمی کے لیے گھر کا چولہا جلانا مشکل ہوگیا ہے، مگر دوسری طرف وہی مخصوص طبقات ہیں جو دولت کے انبار لگا رہے ہیں۔ بڑے کاروباری افراد اور سیاستدان اپنی تجوریاں بھر رہے ہیں جبکہ مزدور دو وقت کی روٹی کے لیے ترس رہا ہے۔
یہ ایک تلخ مگر سچائی پر مبنی حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایسے لوگ موجود ہیں جو دوسروں کے خون پسینے کی کمائی پر پلتے ہیں۔ جیسے گدھ مردار کو نوچنے کے لیے گھات لگائے بیٹھے ہوتے ہیں، ویسے ہی کچھ گدھ نما لوگ کمزور اور بے بس انسانوں کا استحصال کرتے ہیں۔ معاشی بدحالی، کرپشن، لوٹ مار، دھوکہ دہی اور استحصال نے ہمارے سماج کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ غریب اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے دن رات محنت کرتا ہے، مگر استحصالی طبقہ اسے کبھی آگے بڑھنے نہیں دیتا۔ یہ گدھ نما لوگ ہر اس موقعے کی تلاش میں رہتے ہیں جہاں وہ کسی مجبور کو مزید دبانے کا موقع حاصل کر سکیں۔
اس کا حل یہی ہے کہ ہم شعور اور ہمت کے ساتھ ان عناصر کے خلاف کھڑے ہوں۔ ظلم کے خلاف آواز بلند کریں، ضرورت مندوں کو سہارا دیں اور اپنی استطاعت کے مطابق فلاحی کاموں میں حصہ لیں۔ اگر ہم خاموش رہے تو یہ سلسلہ کبھی نہیں رُکے گا۔ ہمیں خود وہ روشنی بننا ہوگا جو اندھیرے کو ختم کر سکے۔ یہ کیسا معاشرہ ہے جہاں غربت، کمزوری اور بے بسی ایک جرم بن گئی ہے؟ جہاں کمزور کا سہارا بننے کے بجائے اسے مزید دبایا جاتا ہے؟ کیا ہم سب گرگِ آشتی کے شکار بھیڑیے بن چکے ہیں؟
یہی وقت ہے کہ ہمیں اس سوچ کو بدلنا ہوگا۔ اگر ہم واقعی خود کو اشرف المخلوقات کہتے ہیں، تو ہمیں اپنے اردگرد موجود کمزور طبقے کو سہارا دینا ہوگا۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ غریبوں کو ریلیف دے، روزگار کے مواقع پیدا کرے اور کرپشن کے ناسور کو ختم کرے مگر کیا کریں اقتدار سے وابستہ بھائے خود کریپشن میں مصروف ہیں ہمیں بحیثیت قوم اپنے اخلاقی زوال کو روکنے کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے۔ ورنہ اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو ایک دن ایسا آئے گا کہ پورا معاشرہ گرگِ آشتی کے اصولوں پر چلنے لگے گا اور پھر کوئی بھی محفوظ نہیں رہے گا۔
ہمیں اپنے اندر ہمدردی پیدا کرنی ہوگی، ورنہ تاریخ ہمیں بھی انہی تباہ شدہ اقوام میں شمار کرے گی جو کمزوروں کا استحصال کرتے کرتے خود فنا ہوگئیں۔ یہ تحریر معاشرتی اصلاح کے لیے لکھی گئی ہے۔ اگر آپ کو لگتا ہے کہ اس کا کوئی مثبت اثر ہو سکتا ہے تو اسے زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچائیں۔ کسی مجبور اور لاچار کی مدد کرنا انسانیت کی معراج ہے اور یہی وہ عمل ہے جو ہمیں حقیقی سکون عطا کرتا ہے۔ اگر ہر فرد اس سوچ کو اپنا لے تو ہمارا معاشرہ بہت بہتر ہو سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو معاشرے میں وہ غریب اور مستحق لوگ جنکو مدد کی ضرورت ہے ان کے کام آنے کی توفیق عطا فرمائے آمین!

