Firon Ke Gharur Se Ibrat Pakren
فرعون کے غرور سے عبرت پکڑیں

آج کی ایک اور نئی صبح اللہ تعالیٰ کی طرف سے عنایت ہوئی بلکہ ایک مہلت ملی کہ ہم اپنی زندگیوں کو سنواریں گناہوں سے توبہ کریں اور اس راستے پر چلیں جو ہمیں اس کے دربار میں سرخرو کرے۔ جیسا کہ ہم سب کو معلوم ہے کہ پلٹ کر تو ہمیں اسی رب کی بارگاہ میں حاضر ہونا ہے جہاں کوئی طاقت کوئی دولت اور کوئی مغروری کام نہیں آئے گی اگر کوئی چیز کام آئے گی تو وہ ہماری عاجزی ہے اور نیک اعمال ہیں۔ صرف اعمال کی پوچھ گچھ ہوگی اور اگر ہم نے دنیا میں ظلم کیا انسانیت کو پامال کیا تو وہاں ندامت اور شرمندگی کے سوا کچھ نہ ہوگا۔
یہ تحریر اسی موضوع پر ہے جو ہم سب کے لیے ہے لیکن خاص طور پر ان لوگوں کے لیے جو فرعون کی طرح مغرور ہو کر بیٹھے ہیں۔ استشنی لیکر سمجھے ہیں کہ اب انہیں پوچھنے والا کوئی نہیں، نہیں یہ اپنے آپ کے ساتھ دھوکہ ہے۔ جو طاقت کے نشے میں دوسروں کی زندگیوں کو عذاب بنا دیتے ہیں، جو انسانیت کا ذرہ برابر احترام نہیں کرتے۔ یہ تحریر قرآن مجید کی روشنی میں تاریخی واقعات سے سبق لے کر اور موجودہ دور کی حقیقتوں کو سامنے رکھ کر لکھی گئی ہے تاکہ ہم سب سوچیں بدلیں اور اللہ کی طرف رجوع کریں۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرعون کی داستان کو بار بار بیان کیا ہے تاکہ انسان اس سے عبرت حاصل کرے فرعون مصر کا وہ بادشاہ تھا جو خود کو خدا سمجھتا تھا وہ کہتا تھا "أنا ربکم الأعلیٰ" یعنی میں تمہارا سب سے بڑا رب ہوں (سورۃ النازعات: 24)۔ اس کی طاقت ایسی تھی کہ اس نے بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا تھا ان کے بچوں کو قتل کرتا تھا عورتوں کو ذلیل کرتا تھا وہ انسانیت کا دشمن تھا کیونکہ اس کی مغروری نے اسے اندھا کر دیا تھا وہ سوچتا تھا کہ دریائے نیل اس کی ملکیت ہے، فوج اس کی ہے دولت اس کی ہے اور کوئی اسے روک نہیں سکتا لیکن اللہ نے حضرت موسیٰؑ کو بھیجا جو ایک کمزور غلام کے گھر پیدا ہوئے تھے اور فرعون کی پوری سلطنت کو چیلنج کیا۔
سبق یہ ہے کہ مغروری انسان کو تباہ کر دیتی ہے فرعون نے اللہ کے نشانات دیکھے، سانپ کا معجزہ، دریائے نیل کا خون بننا، ٹڈیوں کا حملہ لیکن اس کی مغروری نے اسے توبہ کرنے نہیں دیا نتیجہ؟ وہ اور اس کی فوج سمندر میں غرق ہو گئے قرآن کہتا ہے فَأَخَذَهُ اللَّهُ نَكَالَ الُآخِرَةِ وَالُأُولَىٰ (سورۃ النازعات 25) یعنی اللہ نے اسے دنیا اور آخرت کی سزا دی۔ آج کے دور میں بھی ایسے فرعون موجود ہیں حکمران کاروباری یا عام لوگ جو طاقت کے نشے میں دوسروں کو عذاب دیتے ہیں وہ سوچتے ہیں کہ ان کی طاقت ابدی ہے لیکن تاریخ گواہ ہے کہ ہر ظالم کا انجام فرعون جیسا ہوتا ہے۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی زندگی انصاف عدل اور انسانیت کی روشن مثالیں سے بھری پڑی ہے۔ ایک ایسا واقعہ جو ہر ظالم کے لیے سخت نصیحت ہے وہ آپ کا ایک یہودی کے ساتھ زرہ (ڈھال) کا مقدمہ ہے یہ واقعہ اسلامی تاریخ کی کتابوں میں مشہور ہے اور عدل کی ایسی مثال پیش کرتا ہے جو آج بھی دنیا بھر میں بیان کی جاتی ہے۔
حضرت علیؓ خلیفہ تھے مسلمانوں کے امیر المومنین لیکن ایک دن آپ کی زرہ جنگ کے میدان میں گر گئی یا گم ہوگئی کچھ عرصے بعد آپ نے دیکھا کہ کوفہ کے بازار میں ایک یہودی کے پاس وہی زرہ ہے آپ نے اس سے کہا کہ یہ میری زرہ ہے مجھے واپس کر دو یہودی نے انکار کر دیا اور کہا کہ یہ میری ہے، تم ثابت کرو۔
حضرت علیؓ جو پوری اسلامی سلطنت کے حکمران تھے طاقت استعمال کرنے کے بجائے عدالت کا راستہ اختیار کیا آپ خود یہودی کو لے کر قاضی شریح کی عدالت میں حاضر ہوئے۔ قاضی شریح کو آپ نے ہی مقرر کیا تھا عدالت میں قاضی نے حضرت علی کو احتراماً کھڑا ہونے کا اشارہ کیا لیکن آپ نے فرمایا نہیں میں اور یہ یہودی برابر ہیں دونوں بیٹھیں۔
حضرت علی نے اپنا دعویٰ پیش کیا یہ زرہ میری ہے قاضی نے پوچھا تمہارے پاس گواہ ہیں آپ نے اپنے غلام قنبر اور اپنے بیٹوں حضرت حسن اور حضرت حسینؓ کو گواہ پیش کیا قاضی نے غلام کی گواہی مسترد کر دی کیونکہ غلام مالک کے حق میں گواہی نہیں دے سکتا بیٹوں کی گواہی بھی مسترد کر دی کیونکہ بیٹا باپ کے حق میں گواہ نہیں ہو سکتا۔
نتیجہ؟ عدالت نے فیصلہ یہودی کے حق میں دے دیا اور زرہ یہودی کو دے دی گئی حضرت علیؓ جو خلیفہ تھے طاقت کے باوجود فیصلے کو تسلیم کر لیا اور خاموشی سے واپس چلے گئے۔
یہ دیکھ کر یہودی حیران رہ گیا اس نے کہا ایسا انصاف تو انبیاء کے درباروں میں ہوتا ہے! مسلمانوں کا خلیفہ خود عدالت میں آتا ہے اپنے مقرر کردہ قاضی کے فیصلے کو مانتا ہے چاہے وہ اس کے خلاف ہو پھر یہودی نے زرہ واپس کر دی اور کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگیا حضرت علی نے نہ صرف زرہ واپس لیا بلکہ یہودی کو تحفہ میں اپنا گھوڑا بھی دے دیا۔
اس واقعے سے سبق، ظالموں اور مغروروں کے لیے سخت نصیحت یہ واقعہ ہر اس شخص کے لیے جو طاقت کے نشے میں انسانیت بھول جاتا ہے ایک سخت تنبیہ ہے آج کے فرعون جو حکمران بن کر کمزوروں کو کچلتے ہیں افسران بن کر رشوت لیتے ہیں یا طاقتور بن کر ظلم کرتے ہیں وہ سوچیں کہ حضرت علی جیسا خلیفہ جو شیر خدا تھے جن کی تلوار سے دشمن کانپتے تھے عدالت میں ایک عام یہودی کے برابر کھڑے ہوئے اور قانون کے سامنے جھک گئے۔
ظالم سوچتے ہیں کہ طاقت سے سب کچھ حاصل کر لیں گے لیکن اللہ کا قانون یہ ہے کہ انصاف سب کے لیے برابر ہے قرآن کہتا ہے إِنَّ اللَّهَ يَأُمُرُ بِالُعَدُلِ وَالُإِحُسَانِ" (سورۃ النحل: 90) یعنی اللہ عدل اور احسان کا حکم دیتا ہے حضرت علی کا یہ عمل بتاتا ہے کہ حقیقی طاقت قانون کی پابندی میں ہے نہ کہ ظلم میں جو مغرور ہو کر دوسروں پر ظلم کرتے ہیں ان کا انجام فرعون جیسا ہوگا دنیا میں رسوائی اور آخرت میں عذاب۔
آج کی دنیا میں فرعون کی روح زندہ ہے دیکھیے جنگیں کرنے والے حکمران جو بے گناہوں کو مارتے ہیں بچوں کو یتیم کرتے ہیں عورتوں کو بیوہ وہ طاقت کے نشے میں ہیں سوچتے ہیں کہ ان کی فوج ہتھیار اور اتحادی انہیں بچا لیں گے لیکن اللہ کا قانون بدلتا نہیں وَلاَ يَحُسَبَنَّ الَّذِينَ كَفَرُواُ أَنَّمَا نُمُلِي لَهُمُ خَيُرٌ لِّأَنفُسِهِمُ إِنَّمَا نُمُلِي لَهُمُ لِيَزُدَادُواُ إِثُمًا (سورۃ آل عمران: 178) یعنی کافر یہ نہ سمجھیں کہ ہم انہیں مہلت دے رہے ہیں تو یہ ان کے لیے اچھا ہے بلکہ یہ مہلت ان کے گناہ بڑھانے کے لیے ہے۔
پھر وہ لوگ جو معاشرے میں طاقتور بن کر کمزوروں کو کچلتے ہیں کرپٹ افسران جو رشوت لے کر غریبوں کے حقوق کھاتے ہیں تاجر جو منافع کے لیے زہریلی چیزیں بیچتے ہیں یا وہ جو سوشل میڈیا پر نفرت پھیلاتے ہیں یہ سب فرعون کی اولاد ہیں جو انسانیت کو بھول گئے ہیں۔ ایک مثال فلسطین میں جاری ظلم جہاں طاقتور ملک کمزوروں پر بم برساتے ہیں، بچوں کو مارتے ہیں اور پھر بھی مغرور ہیں کیا وہ سوچتے ہیں کہ اللہ دیکھ نہیں رہا؟ یا تاریخ میں ہٹلر، سٹالن جیسے ظالموں کا انجام دیکھ کر بھی نہیں سیکھتے؟
انسانیت کا مطلب ہے کہ ہم ایک دوسرے کے لیے رحم دل بنیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا "المسلم من سلم المسلمون من لسانه ویده" یعنی مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں (بخاری) لیکن آج کے فرعون تو مسلمانوں کو بھی نہیں بخشتے غیر مسلموں کو تو چھوڑیں وہ عذاب بنے بیٹھے ہیں لیکن یاد رکھیں اللہ کا عذاب ان سے بڑا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ ہم کیسے بچیں؟ پہلا قدم توبہ فرعون کو اللہ نے کئی مواقع دیے لیکن اس نے انکار کیا ہم توبہ کریں اللہ سے معافی مانگیں قرآن کہتا ہے قُلُ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسُرَفُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمُ لَا تَقُنَطُوا مِن رَّحُمَةِ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يَغُفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا" (سورۃ الزمر 53) یعنی میرے بندو جو اپنے آپ پر زیادتی کر چکے اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو وہ سب گناہ معاف۔
دوسرا انسانیت کی خدمت جو لوگ فرعون بنے بیٹھے ہیں انہیں دیکھ کر ہم اپنے اندر جھانکیں کیا ہم بھی کسی کو تکلیف دے رہے ہیں خاندان میں کام کی جگہ پر یا معاشرے میں اللہ کا حکم ہے وَتَعَاوَنُوا عَلَى الُبِرِّ وَالتَّقُوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الُإِثُمِ وَالُعُدُوَانِ (سورۃ المائدہ: 2) یعنی نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے کی مدد کرو گناہ اور زیادتی میں نہیں۔
تیسرا علم اور شعور قرآن پڑھیں احادیث سیکھیں تاریخ سے سبق لیں آج کے دور میں جہاں سوشل میڈیا پر نفرت پھیلتی ہے ہم سچائی کی آواز بنیں ان فرعونوں کو بتائیں کہ ان کا انجام کیا ہوگا شاید وہ توبہ کریں۔
جو لوگ طاقت میں بیٹھے ہیں اور انسانیت کو کچل رہے ہیں حکمران افسران یا کوئی بھی سن لو! تمہاری طاقت عارضی ہے فرعون کی طرح تم بھی ایک دن مٹی ہو جاؤ گے اللہ کا عذاب دنیا میں بھی آ سکتا ہے جیسے زلزلے، سیلاب یا انقلابات اور آخرت میں تو جہنم کی آگ ہے توبہ کرو ظلم چھوڑو انسانیت کی خدمت کرو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا "کلکم راع وکلکم مسؤول عن رعیته" یعنی تم سب راعی ہو اور سب سے اپنی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا (بخاری)۔ تمہاری رعیت تمہارے ماتحت لوگ ہیں انہیں عذاب مت بناؤ۔
یہ صبح ہمیں یاد دلاتی ہے کہ زندگی مختصر ہے۔ یہ شام کا اندھیرا ہمیں بتاتا ہے یہاں سدا نہیں رہنا ہے تو پھر یہ غفلت کیسی یہ فرعونیت کیسی گناہوں سے بچیں خاص کر بڑے گناہوں جیسے ظلم، مغروری اور انسانیت کی تباہی اللہ ہمیں توفیق دے کہ ہم فرعون کی راہ نہ چلیں بلکہ موسیٰ کی طرح حق کے لیے کھڑے ہوں۔ اللہ ہم سب کو ہدایت دے اور انصاف کی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔

