Falsafa e Karbala Aik Fikri Jhalak (1)
فلسفہ کربلا ایک فکری جھلک (1)

کربلا تاریخ کا ایک باب نہیں، ایک آئینہ ہے ایک ایسا آئینہ جس میں ہر زمانہ اپنی شکل دیکھتا ہے اور شرم سے آنکھیں جھکا لیتا ہے چودہ صدیاں بیت گئیں، مگر کربلا کا غبار آج بھی ہماری روحوں پر چھایا ہوا ہے سوال یہ نہیں کہ یہ واقعہ کب ہوا سوال یہ ہے کہ یہ کیوں ہوا اور کیوں آج بھی اتنا ہی زندہ ہے جتنا کل تھا۔ کربلا محض یزید و حسین کا معرکہ نہیں تھا۔ ایک طرف تخت تھا، دوسری طرف کردار ایک طرف موروثی خلافت کا لبادہ اوڑھے ظلم دوسری طرف نانا کی سنت پر قربان ہونے کو تیار نواسہ کربلا نے ہمیں بتایا کہ دین بچتا ہے سر کٹانے سے نہ کہ جھکانے سے۔
یہ فلسفہ ہے استقامت کا یہ سبق ہے اس بات کا کہ جب باطل نظام اپنی تمام چالاکیوں وسائل اور سازشوں کے ساتھ سامنے آئے تو تمہیں سر جھکانے کی اجازت نہیں حسینؑ نے اگر بیعت کر لی ہوتی تو تاریخ کے صفحات پر ان کا نام ان ہزاروں ریاستی مفاہمت پسندوں میں دب کر رہ جاتا جن کی یاد صرف سرکاری ریکارڈ میں رہتی ہے دلوں میں نہیں۔ مگر انہوں نے بیعت نہیں کی سر کٹایا، مگر اصول نہ چھوڑا آج کا مسلمان اور خاص طور پر آج کا پاکستانی مسلمان جس کا ہر صبح بدعنوانی منافقت اور بے حسی کے سائے میں طلوع ہوتی ہے، وہ جب حسینؑ کا ذکر کرتا ہے تو اس کی آنکھ نم ہو جاتی ہے، مگر اس کی عملی زندگی یزید کے نظام کی مکمل پیروی کرتی ہے۔ یہ دوغلا پن ہی اصل بیماری ہے۔
کربلا زندہ ہے کیونکہ ظلم آج بھی زندہ ہے۔ کربلا کی چنگاری سلگ رہی ہے کیونکہ باطل آج بھی ایوانوں میں موجود ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ آج کے یزید ٹائی لگا کر آتے ہیں، سکرینوں پر بیٹھتے ہیں اور حسینؑ کے نام پر بھی سیاست کرتے ہیں۔ یہی وہ المیہ ہے جس پر کربلا ماتم کرتی ہے یہ واقعہ اس لیے تازہ ہے کہ ہر دور میں ظالم موجود ہوتا ہے اور ہر دور کو ایک حسینؑ چاہیے ہوتا ہے۔ مگر افسوس آج کے معاشرے کو نہ ظلم کا احساس ہے نہ حسینیت کی طلب۔
ہم صرف نوحہ گری کے ماہر ہو چکے ہیں، کردار کے وارث نہیں تو صاحبو! کربلا کو صرف ماتم کا واقعہ نہ سمجھو، یہ ایک تحریک ہے۔ ایک ایسا نظریہ جس میں ہر باطل کو للکارنے کی جرات ہے اور ہر ظالم کے سامنے سچ کہنے کی جرأت لیکن شرط یہ ہے کہ تم حسینؑ کے نام پر گریہ کرنے کے ساتھ، حسینؑ کے راستے پر چلنے کا عزم بھی کرو ورنہ یاد رکھو یزید تو ہر دور میں جیتتا ہے صرف وقتی طور پر۔
61 ہجری میدان کربلا کے گرم ریگزار پر پیش آنے والے اس عظیم واقعہ کو جہاں دیگر طبقات، گروہوں اور شخصیات نے اپنا موضوع سخن قرار دیا، وہاں ادب و آہنگ سے تعلق رکھنے والے حضرات نے بھی اسے اپنی شاعری کا موضوع بنایا۔
قتل حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
علامہ اقبالؒ کی اردو شاعری میں بھی یادگار اور فکر انگیز اشعار نسل انسانی کی رہنمائی اور کربلا سے ان اقبالؒ کے تعلق و تمسک کا بہترین اظہار ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں:
حقیقت ابدی ہے مقام شبیری
بدلتے رہتے ہیں انداز کوفی و شامی

