Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shair Khan
  4. Dostiyan Nahi, Mafadat Daaimi Hain

Dostiyan Nahi, Mafadat Daaimi Hain

دوستیاں نہیں مفادات دائمی ہیں

کبھی صدر آیزن ہاور نے کہا تھا امریکہ کے مفادات کے نہ کوئی مستقل دشمن ہوتے ہیں، نہ دوست، صرف مقاصد ہوتے ہیں۔ یہ جملہ اس زمانے میں شاید بہتوں کو سیاست کی خشک لغت لگا ہو مگر وقت نے اسے ایک آفاقی اصول بنا دیا ہے آج جب ہم عالمی نقشے پر نظریں دوڑاتے ہیں تو ہر سمت یہی فلسفہ رقصاں دکھائی دیتا ہے مفادات کے دائرے میں قید قومیں، نظریات کے لباس میں لپٹے سودے اور وعدوں کے مینار جن کی بنیاد ریت پر رکھی گئی ہے۔

کل تک جو ملک امریکی دوستی کے قصیدے پڑھ رہا تھا، آج وہی امریکہ کے کسی نئے معاہدے پر حیران ہے اور جو ملک کل تک واشنگٹن کو شیطانِ کبیر کہہ کر اپنے عوام کی تالیاں سمیٹتا تھا آج وہی اس کے ساتھ دس سالہ دفاعی معاہدے پر دستخط کرکے نئے دور کے آغاز کا اعلان کر رہا ہے۔ دنیا کے مفادات کا یہ کھیل اتنا تیز رفتار ہے کہ اصول پسندی اب صرف کتابوں کی زینت رہ گئی ہے۔

طاقتور قوموں کے درمیان امن کے نام پر جنگ کے بیوپار کھل چکے ہیں۔ دفاعی معاہدے اب دراصل اسلحے کے اشتہارات بن چکے ہیں اور تعاون کی اصطلاح سرمایہ کاری کے نئے جال۔ جنہیں کل دشمن کہا گیا آج ان کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنسیں ہوتی ہیں اور جن کے ساتھ کل تصویریں کھنچوائی گئیں، آج ان پر پابندیاں لگائی جا رہی ہیں۔

یہ معاہدوں کا موسم ہے ہر ملک اپنی چھتری کھولے کھڑا ہے، تاکہ مفاد کی بارش میں زیادہ سے زیادہ قطرے اپنے دامن میں جمع کر سکے۔ کسی کو نظریے کی فکر نہیں، کسی کو اخلاقیات کی شرم نہیں۔ سب کے نزدیک اہم یہ ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں نہیں، بلکہ ہمیں کیا مل سکتا ہے۔

شاید یہی سیاست کی اصل حقیقت ہے ایک ایسا تماشہ جس میں چہرے بدلتے رہتے ہیں مگر اسٹیج ایک ہی رہتا ہے۔ نعرے نئے لگتے ہیں مگر معنی وہی پرانے طاقت کی غلامی، مفاد کی بندگی۔ ہمیں حیرت نہیں ہونی چاہیے اگر کل وہی قومیں جنہیں آج امریکہ کی آغوش گرم لگ رہی ہے کل اس کے سایے سے بھی بھاگتی دکھائی دیں۔ کیونکہ مفادات کا رقص جب شروع ہوتا ہے تو کوئی وفادار نہیں رہتا سب تماشائی بن جاتے ہیں دنیا کے لیے یہ محض سیاست ہے مگر کمزور قوموں کے لیے یہ ہمیشہ قربانی کا موسم ہوتا ہے۔

دنیا کی سیاست میں اگر کسی ملک کو مفاد پرستی کی علامت کہا جائے تو وہ بلاشبہ امریکہ ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ امریکہ کی خارجہ پالیسی کبھی انسانی ہمدردی یا اصولوں پر نہیں، بلکہ مفادات پر مبنی رہی ہے۔ وہ جہاں دوستی کا ہاتھ بڑھاتا ہے، وہاں دراصل اپنے معاشی، عسکری یا جغرافیائی مقاصد کا جال بچھاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ کی قربت اکثر اقوام کے لیے تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوئی ہے۔

امام خمینیؒ نے ایک تاریخی جملہ کہا تھا امریکہ کی دشمنی سے نہیں، اس کی دوستی سے ڈرو۔ یہ جملہ صرف ایک سیاسی تنبیہ نہیں بلکہ ایک صدیوں کے تجربے کا نچوڑ ہے۔ کیونکہ امریکہ جب کسی قوم سے دوستی کرتا ہے تو وہاں اپنی مرضی کا نظام، اپنے مفاد کی پالیسیاں اور اپنی سرمایہ دارانہ سوچ نافذ کر دیتا ہے۔ اس کی دوستی کے بدلے میں آزادی، خودمختاری اور ثقافتی اقدار قربان کرنا پڑتی ہیں۔ دنیا کے کئی ممالک اس کی دوستی کے نشے میں برباد ہو چکے ہیں۔ عراق، افغانستان، لیبیا، شام، پاکستان اور لاطینی امریکہ کے متعدد ممالک آج بھی امریکی پالیسیوں کی قیمت ادا کر رہے ہیں۔

کبھی جمہوریت کے نام پر کبھی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر امریکہ نے ان ممالک کو تباہ کیا ان کی معیشتوں کو کمزور کیا اور ان کی سیاست کو اپنے تابع بنا دیا امریکہ کی دوستی ایک ایسے سودے کی مانند ہے جس میں ایک فریق کے پاس طاقت، پیسہ اور میڈیا ہوتا ہے جبکہ دوسرے کے پاس صرف امید۔ مگر جب یہ امید مفاد کے بوجھ تلے دب جاتی ہے تو قومیں احساس کرتی ہیں کہ یہ دوستی نہیں بلکہ ایک خاموش غلامی تھی۔

امام خمینیؒ کا پیغام آج بھی زندہ حقیقت ہے۔ امریکہ کبھی کسی ملک کا دوست نہیں ہوتا وہ صرف اپنے مقاصد کا شریک کار تلاش کرتا ہے۔ جو قوم اس کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے، وہ آخرکار اس کے اشاروں پر ناچنے لگتی ہے اور جب مفاد ختم ہوتا ہے تو وہی قوم، جو کبھی اتحادی کہلاتی تھی، دہشت گرد یا ناقابلِ اعتماد قرار دے دی جاتی ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ دنیا خاص طور پر مسلم اُمت، امریکہ کی دوستی کے جال کو پہچانے۔ دوستی اگر خودداری کے بدلے میں ہو تو وہ دراصل نئی شکل کی غلامی ہے۔ امام خمینیؒ کے الفاظ آج بھی گونج رہے ہیں جو حرف بہ حرف سچ ثابت ہو رہے ہیں۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam