Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shair Khan
  4. Doobta Rawalpindi, Sota Nizam

Doobta Rawalpindi, Sota Nizam

ڈوبتا راولپنڈی، سوتا نظام

راولپنڈی ایک بار پھر ڈوب گیا نہیں صاحب! صرف شہر نہیں ڈوبا، اس کے ساتھ ڈوب گیا ایک پورا نظام، ایک سوچ، ایک طرزِ حکمرانی اور وہ خواب جو کبھی قائداعظم کے پاکستان کے نام پر دیکھے گئے تھے۔ چند گھنٹوں کی بارش تھی، لیکن جیسے برسوں کی بےحسی دھل کر باہر آ گئی ہو۔ سڑکیں دریا، گلیاں نالے اور مکان کشتیوں کی مانند ہچکولے کھا رہے تھے۔ مگر حیرت کی بات یہ نہیں، حیرت تو اس پر ہے کہ میڈیا پر بیٹھے تجزیہ کار اسے "قدرتی آفت" قرار دے کر معاملے کو آسمانی لکھنے پر بضد تھے، جیسے برساتی پانی کے ساتھ ان کی عقل بھی بہہ گئی ہو۔ راولپنڈی کا ایک بچہ چیخ کر کہہ رہا تھا امی! کیا ہمارا گھر بھی تیرنے لگے گا اور اس کی ماں، جو مہنگائی کے تھپیڑوں سے نڈھال تھی، بس اتنا بولی پانی کی عادت نہیں، بیٹا، حکمرانوں کی بےحسی کا عادی ہو جا۔

کہا گیا تھا کہ نالہ لئی کا مسئلہ حل ہو جائے گا، بڑے منصوبے بنائے گئے، تصاویر کھنچوائی گئیں، وعدے کیے گئے، مگر ہر بار کی طرح سیلاب نے وہ تصاویر دھو ڈالیں اور وعدوں کو بہا لے گیا سنا ہے نیا پاکستان بن چکا ہے، پرانا بھی مسمار ہو چکا ہے۔ اب بس ایک عذاب پاکستان باقی رہ گیا ہے، جہاں ہر بارش، ایک ماتم بن کر آتی ہے، ہر بوند ایک سوالیہ نشان بن جاتی ہے اور ہر سیزن ایک نوحہ سیاستدانوں کے بیانات بھی ایک جیسے ہوتے ہیں۔

ہم نے نوٹس لے لیا ہے سروے جاری ہے جلد متاثرین کی مدد کی جائے گی۔ یعنی جیسے ہر بار کی طرح اس بار بھی امداد کے نام پر "فراڈ" تیار ہے۔ راولپنڈی کا ڈوبنا ایک سانحہ نہیں، ایک علامت ہے یہ ان سوچوں کا ڈوبنا ہے جنہوں نے بلدیاتی ادارے معطل کیے، منصوبے فائلوں میں دفن کیے اور ترقی کا مطلب صرف میٹرو بس یا سیاسی نعرے سمجھا۔ یہ اس ضمیر کا ڈوبنا ہے جسے ایک مزدور کی لاش، ایک ماں کی چیخ، ایک بچے کا سوال جھنجھوڑ نہ سکا۔

سوال یہ نہیں کہ راولپنڈی کب ڈوبے گا؟ سوال یہ ہے کہ حکمرانوں کی غیرت کب جاگے گی؟

یا شاید وہ بھی کسی بارش میں بہہ چکی ہے۔ فی الحال تو صرف عوام کا نصیب برس رہا ہے اور حکومت چھتری تانے ٹی وی اسکرین پر بیٹھ کر تماشا دیکھ رہی ہے سواریاں رکشوں میں نہیں، چنگ چی کشتیوں میں سفر کرتی رہیں لیاقت باغ کے ارد گرد پانی ایسے گھوم رہا تھا جیسے وہ نظام عدل کو ڈھونڈ رہا ہو جو کسی جلسے میں تو مل جاتا ہے، مگر عوامی مسائل میں غائب ہو جاتا ہے ریس کورس سے بنی چوک تک کی سڑک، جو کبھی اقتدار کے قافلوں کی آماجگاہ تھی، آج غریب کی فریاد سننے سے بھی قاصر تھی۔ ایک بیوہ عورت، جس کا کمرہ پانی میں بہہ گیا، کہتی ہے پچھلی بار بھی حکومت نے وعدہ کیا تھا نالہ لئی پر کام ہوگا اب وہی وعدہ میرے پلنگ کے ساتھ بہہ گیا ہے۔

کچھ علاقوں میں صورتحال یہ تھی کہ ڈھوک کالا خان، چکری روڈ اور صدر کے نواح میں گھروں کے اندر پانی داخل ہوگیا لوگ اپنے بچوں کو بوریوں میں لپیٹ کر چھت پر لے جا رہے تھے اور ایسے میں وفاقی وزیروں کی ٹیم بنی گالہ کے سبزہ زار پر حکومتی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کر رہی تھی سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی۔ جس میں ایک بچہ نالے کے کنارے کھڑے ہو کر چیخ رہا تھا بابا کو پانی لے گیا کسی نے اس کی چیخ سننے کے بجائے نیچے کمنٹ کیا یہ PMLN کی نااہلی ہے کسی نے جواب دیا: "نہیں، یہ PTI کی نالائقی ہے! کسی نے لکھا بلدیاتی نظام ختم کرکے یہ دن خود بلایا ہے اور کوئی کہہ رہا تھا فوج کو بلائیں! فوج کو بلانے کی ضرورت نہیں وہ بن بلائے اپنے مقاصد کے لئے آتی نہیں کوڈ پڑتی ہے اسطرف سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔۔

ارے بھائیو! یہ سیاسی نعرے بعد میں لگا لینا، پہلے عوام کی سانسیں بچا لو! راولپنڈی صرف پانی میں نہیں ڈوبا یہ ایک اجتماعی غفلت میں غرق ہوا ہے یہ سسٹم کی بےحسی، سیاست کی گندگی اور وعدوں کی لاش اپنے ساتھ بہا کر لے گیا ہے بارش تو قدرت کی رحمت ہے، لیکن جب وہ کسی غفلت زدہ شہر بے حس عوامی نمائیندوں کے شہر پر برستی ہے تو وہ عذاب بن جاتی ہے، ماتم بن جاتی ہے اور راولپنڈی جیسا شہرصرف پانی سے نہیں، شرمندگی سے بھی ڈوب جاتا ہے۔

Check Also

Bani Pti Banam Field Marshal

By Najam Wali Khan