Diamer Mein Mazhabi Munafiqat Ka Dohra Mayar
دیامر میں مذہبی منافقت کا دوہرا معیار

دیامر کا خوبصورت خطہ جہاں قدرتی حسن کی فراوانی ہے اور لوگوں کی سادگی مشہور ہے آج کل ایک سنگین بحران کا شکار ہے۔ یہ بحران نہ صرف سیاسی اور سماجی ہے بلکہ مذہبی منافقت کی ایک واضح مثال بھی ہے۔ یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ ہم جیسے عام لوگ اگر قرآنی آیت کا ایک تلفظ بھی غلط پڑھ دیں تو مذہبی طبقہ شور مچاتے ہوئے ہمیں مسلمان کے پیمانوں پر پرکھنے لگتا ہے۔ وہ ہماری نیت ہماری عقیدت اور ہماری ایمانی حیثیت پر سوال اٹھاتے ہیں جیسے ہم نے کوئی عظیم جرم کر دیا ہو لیکن جب دیامر میں فتنہ الخوارج کا ایک بدنام زمانہ خودساختہ کمانڈر اسلام کا لبادہ اوڑھ کر آیات الہی کی غلط تشریحات گھڑتا ہے ریاستی رٹ کو چیلنج کرتا ہے فوج کو قتل کرنے کی دھمکیاں دیتا ہے اور اس سنگین بغاوت کو جائز قرار دیتا ہے تو وہی مذہبی طبقہ یکایک زبان بند کیوں کر لیتا ہے۔ یہ خاموشی محض اتفاق نہیں بلکہ ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کا نتیجہ دکھائی دیتی ہے۔
اس خاموشی کا سیدھا مطلب یہی ہے کہ مذکورہ بالا شخص کے جرائم کے پیچھے کہیں نہ کہیں دیامر کے مذہبی طبقات کی رضا، مصلحت یا کم از کم چشم پوشی ضرور کارفرما ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو مساجد میں وعظ دیتے ہیں، مدارس میں درس دیتے ہیں اور سماجی تقریبات میں اسلام کی حفاظت کی باتیں کرتے ہیں لیکن جب کوئی شدت پسند عنصر دین کی آڑ میں بندوق اٹھا کر اپنی خود ساختہ شریعت نافذ کرنے کی دھمکیاں دے رہا ہوتا ہے تو یہ طبقہ کیوں چپ سادھ لیتا ہے؟
کیا یہ خوف ہے، مصلحت ہے یا پھر خفیہ حمایت؟ تاریخ گواہ ہے کہ خوارج جیسے فتنے ہمیشہ مذہبی لباس میں ہی نمودار ہوئے ہیں اور ان کی خاموش حمایت کرنے والوں نے ہی معاشروں کو تباہی کے دہانے پر پہنچایا ہے دیامر میں اگر کوئی مسلح جتھہ اپنی مرضی کی شریعت بندوق کے زور پر نافذ کرنے کی دھمکی دے اور یہاں کے نوجوان علما اور سماجی حلقے تماشائی بنے رہیں تو یہ خاموشی نہ صرف مشکوک ہے بلکہ خطرناک بھی یہ خاموشی ایک ایسے آتش فشاں کو جنم دے رہی ہے جو پورے علاقے کو لپیٹ میں لے سکتا ہے۔
دیامر کے لوگوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ اسلام امن عدل اور رواداری کا دین ہے نہ کہ تشدد اور بغاوت کا۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ لا إكراه في الدين یعنی دین میں کوئی جبر نہیں لیکن یہ شدت پسند عناصر اس آیت کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی مرضی کی تشریحات گھڑتے ہیں اور لوگوں کو خوف زدہ کرتے ہیں۔ ریاستی رٹ کو چیلنج کرنا فوج پر حملے کی دھمکیاں دینا اور بغاوت کو جائز قرار دینا نہ صرف ملکی قوانین کی خلاف ورزی ہے بلکہ اسلامی تعلیمات کی بھی توہین ہے۔ حدیث نبوی میں ہے کہ المسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده یعنی مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں تو پھر یہ کون سا اسلام ہے جو بندوق کی نوک پر نافذ کیا جائے؟ مذہبی طبقے کی یہ خاموشی اس لیے بھی زیادہ افسوسناک ہے کہ یہ لوگ ہی معاشرے کے ضمیر کی آواز ہونے چاہییں اگر وہ چپ رہے تو کون بولے گا؟
اس صورت حال میں ضروری ہے کہ دیامر کے عوام خاص طور پر نوجوان اور علما اس منافقت کو چیلنج کریں۔ ایسے عناصر کا اجتماعی سطح پر مقابلہ کرنا ان کی حوصلہ شکنی کرنا اور ان کا سماجی بائیکاٹ کرنا نہ صرف ضروری ہے بلکہ علاقے کی سلامتی کے لیے فرض کے درجے میں آتا ہے مساجد اور مدارس میں اس موضوع پر بحث ہونی چاہیے سماجی میڈیا پر آواز اٹھائی جانی چاہیے اور مقامی لیڈرز کو ریاستی اداروں کے ساتھ مل کر کارروائی کی اپیل کرنی چاہیے مگر افسوس کہ ہم میں سے اکثریت منافقانہ مصلحت کا شکار ہے سب کچھ دیکھ کر بھی کچھ نہیں کہہ پاتے یہ خوف کی زنجیریں ہیں جو ہمیں جکڑے ہوئے ہیں اور یہ زنجیریں صرف اتحاد اور جرات سے ہی ٹوٹیں گی۔
یہ کیسا دوہرا معیار ہے دیامر میں پینٹ شرٹ پہننا دین کے لیے خطرہ سمجھا جاتا ہے جیسے یہ لباس ہی اسلام کی بنیادوں کو ہلا دے گا لوگوں کو اس پر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے انہیں کافر اور مغرب زدہ قرار دیا جاتا ہے لیکن دین کی آڑ میں بندوق اٹھانے والے شدت پسند سے کسی کو کوئی خطرہ محسوس نہیں ہوتا۔ یہ لوگ جو بغاوت پھیلاتے ہیں معاشرے کو تقسیم کرتے ہیں اور امن کو تباہ کرتے ہیں انہیں کیوں معاف کیا جاتا ہے کیا یہ اس لیے کہ وہ مذہبی لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں۔ یہ منافقت نہ صرف دیامر بلکہ پورے ملک کے لیے ایک چیلنج ہے۔ اگر ہم نے اب نہ بولا تو کل دیر ہو جائے گی ماضی میں مذہب کے نام پر چلتے مسافروں کو گاڑیوں سے اتار کر جس طرح مارا گیا یہ اسی مذہبی جنون کی عکاسی ہے بلکہ جہالت ہے ایک کلمہ گو کو قتل کرنا دوسرے مسلمان کو کسی طرح بھی زیب نہیں دیتا اسلام محبت رواداری کا درس دیتا ہے قتل و غارت کا نہیں۔
آخر میں دیامر کے عوام سے اپیل ہے کہ اپنے علاقے کی حفاظت خود کریں۔ مذہبی طبقے کو اپنی ذمہ داری کا احساس کریں اور اس دوہرے معیار کو ختم کریں جہاں اسلام کی حقیقی روح زندہ رہے گی وہاں امن بھائی چارہ بھی زندہ رہے گا جہاں فساد تعصب پرستی ہوگی وہاں بدامنی اور فرقہ پرستی وجود میں آئے گی اور اس خطے کی امن کو تباہ و برباد کردے گی۔ اس لئے ضروری ہے ہر مسلمان کو اپنے عقیدے سے جینے دیں ہر انسان نے اپنے عملوں کا خود حساب دینا ہے خود کو مسلمان اور دوسروں کو کافر جیسے غیر مہذب روایات کو ترقی کرکے اصل اسلامی روایات کو اپنانا وقت کی اہم ضرورت ہے، نیز جب اپنے مسلک کے بندے غلط کام کریں تو اسکو سپورٹ اور کوئی اور کرے تو انتشار پھیلا کر مذہبی منافرت پھیلانے جیسے فعل کو اب ترک کرنا ہوگا تاکہ منافقت پاک معاشرہ قائم ہوسکے۔

