Tuesday, 16 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shair Khan
  4. Corona Aur Qalam, Aik Azab, Aik Aghaz

Corona Aur Qalam, Aik Azab, Aik Aghaz

کرونا اور قلم، ایک عذاب، ایک آغاز

یوں تو میں خود کو کسی کالم نگار، کسی دانشور یا کسی اہلِ قلم کے درجے میں نہیں رکھتا۔ میں تو محض ایک اجنبی مزدور تھا، سعودیہ کے تپتے ریگستانوں میں، اپنی محنت سے دن کا سورج ڈھونڈتا، شام کو تھکے بدن کے ساتھ نیند کی تلاش میں گم ہو جانے والا۔ نہ کوئی اخبار، نہ کوئی صحافت، نہ کوئی صحافی۔ بس زندگی کا ایک معمول تھا، جو کرونا نے آ کر درہم برہم کر دیا۔ کرونا صرف ایک وائرس نہیں تھا، یہ ایک قیامتِ صغریٰ تھی جو ہماری چھوٹی چھوٹی دنیاؤں کو اجاڑ کر چلی گئی۔ مسجدوں کے دروازے بند، بازار ویران، انسان اپنے ہی سائے سے خائف اور ہم جیسے دیارِ غیر میں محنت کش، تنخواہوں کی کمی، نوکری کے عدم تحفظ اور واپسی کے غیر یقینی راستوں میں گم۔

ایسے میں کمپنی کی طرف سے ایک ای میل آئی "یا تو پاکستان واپس جائیں یا آدھی تنخواہ پر چھ مہینے گزارا کریں۔ پاکستان جانا جہاں پہلے ہی معاشی زوال، بے روزگاری اور سیاسی انتشار ہمارا منہ چڑاتے ہیں؟ یا یہاں رہ کر اپنی نصف اجرت پر گزر بسر کریں؟ ہم نے وہی کیا جو ہر مفلوک الحال کرتا ہے چپ چاپ آدھی روٹی پر راضی ہو گئے۔ یہ وہ دن تھے جب میں نے قلم پکڑا یوں لگا جیسے ہاتھ میں کوئی نیا ہنر آ گیا ہو۔ نہ کوئی تربیت، نہ کوئی رہنمائی۔ بس ایک درد تھا دل میں اور ایک کاپی تھی سامنے۔ میں نے لکھنا شروع کیا۔

خبریں آ رہی تھیں، چیختی چلاتی، جھنجھوڑ دینے والی سیالکوٹ کی ایک فیکٹری میں غیر مسلم سری لنکن کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا آیات کی مبینہ بے حرمتی کے نام پر۔ میں نے وہ کرب محسوس کیا جیسے انسانیت میری نظروں میں سسک رہی ہو۔ دل نے کہا خاموشی گناہ ہے، کچھ لکھ، کچھ بول۔ لیکن کہاں چھپتا وہ کالم؟ کہاں جاتا وہ درد؟ میرے روم میں گلگت کا ایک بھائی تھا، سجاد حسین، انجینئر ہے، اس سے ذکر کیا میں نے کالم لکھا ہے اسکو کیسے پبلش کروائیں اس نے کہا ایک رشتہ دار رپورٹر ہے، میں اسے بھیج دیتا ہوں چار پانچ دن ہوئے کہیں سے مگر کوئی جواب نہیں آیا۔ الفاظ یتیم رہے۔

ایک دن بیٹھے بیٹھے مجھے یاد آیا کہ پاکستان میں بچوں کے اسکول کا ایک اکاؤنٹنٹ شام کو اخبار ڈیلی کے ٹو میں کام کرتا ہے۔ رابطہ کیا، وٹس ایپ پر سلام دعا کے بعد گزارش کی۔ اُس نے کہا، "کالم بھیجیں، کوشش کرتا ہوں۔ دو دن بعد موبائل پر ایک پیغام آیا آپ کا کالم چھپ گیا ہے۔ تصویر بھی بھیجی، اخبار کی کٹ۔ میری آنکھیں نم ہوگئیں۔ پہلا کالم، وہ بھی دیارِ غیر میں بیٹھ کر، ڈیلی کے ٹو میں۔ یہ میرے لیے کوئی چھوٹا لمحہ نہ تھا، یہ میری نئی زندگی کا پہلا دن تھا کہ گلگت بلتستان کے سب سے بڑے اخبار میں میرا کالم پبلش ہوا۔

پھر وہی سجاد بھائی کام آئے، ان کی وساطت سے باد شمال، ڈیلی سلام، ترجمان میں کالم چھپنے لگے۔ لیکن جس اخبار نے میرا سب سے زیادہ ساتھ دیا، وہ ڈیلی بانگ سحر تھا۔ ایڈیٹر ڈی جے میتھل صاحب کی محبت، شفقت اور مسلسل حوصلہ افزائی نے مجھے وہ پر دیے جن پر سوار ہو کر میں آج تک اُڑ رہا ہوں اور اسکا دل سے مشکور ہوں۔

آج بھی کبھی کبھی جب گلگت بلتستان کے اخبار میں اپنا نام چھپا دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں یہ سب ایک وبا کی دین ہے۔ ہاں، کرونا نے لوگوں سے روزگار چھینا، سانس چھینے، زندگی چھینی، لیکن مجھ سے ایک نئی شناخت دی۔ ایک قلم کار کی، ایک معروضی مشاہدہ نگار کی، ایک آئینہ دکھانے والے کی۔ زندگی کبھی کبھی زخم دیتی ہے، لیکن انہی زخموں سے روشنی بھی جنم لیتی ہے۔ اگر کرونا نہ آتا، تو شاید یہ تحریر بھی نہ ہوتی، شاید قلم کا لمس کبھی نصیب نہ ہوتا۔

اللہ کی حکمت عجیب ہے۔ ہم سمجھتے ہیں، آزمائش ہے، مگر وہ دراصل عنایت ہوتی ہے۔ اب بھی جب کوئی کالم چھپتا ہے، تو میں سوچتا ہوں یہ کرونا تھا یا کوئی غیبی تحریک یہ وبا تھی یا میرے اندر چھپی ایک صدائے بےصدا کو صدا دینے والا ذریعہ خدا جب چاہے، ایک معمولی لمحے کو مقدّر بدلنے کا ذریعہ بنا دیتا ہے۔ کرونا میرے لیے عذاب نہیں تھا، وہ درس تھا، وہ دروازہ تھا جس سے گزر کر میں اپنے آپ سے ملا۔

ہم اکثر تقدیر کو کوستے ہیں، حالات پر شکوہ کرتے ہیں، مگر کبھی ان میں اشارۂ رب تلاش نہیں کرتے مجھے وہ اشارہ کرونا کی شکل میں ملا کہتے ہیں قلم، تلوار سے زیادہ طاقتور ہوتا ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ قلم تب ہی طاقتور ہوتا ہے جب وہ دل سے اٹھے، ضمیر سے گزرے اور حق کی سیاہی میں بھیگا ہو۔ میں آج بھی لکھتا ہوں مگر اب ہر سطر کے ساتھ، ایک مزدور کی خاموشی بولتی ہے، ایک دیارِ غیر کا دکھ بولتا ہے اور ایک اللہ کا شکر کہ مجھے حرف عطا ہوا۔

Check Also

Ummat e Muslima Ko Darpesh Fitne

By Muhammad Umar Shahzad