Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shair Khan
  4. Chalees Musafiron Ki Bus, Magar Driver Kon?

Chalees Musafiron Ki Bus, Magar Driver Kon?

چالیس مسافروں کی بس، مگر ڈرائیور کون؟

بس تیار ہے چالیس مسافروں کے بیٹھنے کی گنجائش، ٹینکی فل، انجن گرم اور دو ڈرائیور بھی اپنی سیٹ پر بیٹھے ہیں۔ مگر حیرت یہ ہے کہ گاڑی چل نہیں رہی۔ وجہ فی الحال یہ طے نہیں ہو سکا کہ ڈرائیونگ لائسنس کس کے پاس ہے سیاست کی یہ بس آزاد کشمیر کے کسی ہموار راستے پر نہیں بلکہ اقتدار کی ان کچی سڑکوں پر کھڑی ہے جہاں ہر موڑ پر ایک نیا پرمٹ آفس کھلتا ہے۔ ایک دفتر مظفرآباد میں ہے، دوسرا اسلام آباد میں اور تیسرا، جو سب سے طاقتور ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس بس کو آگے بڑھنے کے لیے کن کاغذات کی ضرورت ہے؟

تین لائسنس۔

جی ہاں، تین

ایک مظفرآباد کا لوکل لائسنس۔

دوسرا اسلام آباد کا سیاسی لائسنس۔

اور تیسرا پنڈی کا بین الاقوامی لائسنس، جس کے بغیر نہ سگنل کھلتا ہے نہ گاڑی اسٹارٹ ہوتی ہے۔ اب مزے کی بات سنیے بس کے ایک ڈرائیور کے پاس پنڈی کا لائسنس تو موجود ہے مگر مظفرآباد اور اسلام آباد والے دونوں نہیں۔ یعنی وہ گاڑی چلانا جانتا ہے، مگر راستے کے بورڈ پڑھنے نہیں جانتا دوسرے ڈرائیور کے پاس اسلام آباد اور مظفرآباد کے دستخط شدہ کاغذات تو ہیں، مگر پنڈی والا پرمٹ غائب ہے یعنی وہ قانوناً درست ہے مگر عملی طور پر بیکار۔ یوں ایک ڈرائیور کے پاس طاقت ہے مگر اختیار نہیں اور دوسرے کے پاس اختیار ہے مگر طاقت نہیں۔

ذرائع کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی اور طاقت کے مراکز کے درمیان اس وقت ایک خاموش تصادم جاری ہے۔ ایک جانب پارٹی اپنی سیاسی خودمختاری کا پرچم بلند کرنا چاہتی ہے، دوسری طرف اقتدار کے مکین چاہتے ہیں کہ بس کے اسٹیرنگ پر ان کی گرفت مضبوط رہے چنانچہ قائدِ ایوان کے نام پر تاخیر دراصل فیصلہ سازی نہیں اجازت نامے کا انتظار ہے۔ کہیں سے فون آنا باقی ہے کہیں فائل پر آخری دستخط ہونا باقی ہیں کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی۔

ایک تیسرا ڈرائیور بھی ہے وہ جو ماضی میں انہی میں سے ایک کے ساتھ سیکنڈ ڈرائیور کے طور پر کام کر چکا ہے اب وہ چاہتا ہے کہ خود اسٹیرنگ سنبھالے مگر مسئلہ یہ ہے کہ اس کا لائسنس مدتِ میعاد سے باہر ہو چکا ہے اور پنڈی کی اتھارٹی فی الحال اسے رینیو کرنے کے موڈ میں نہیں یوں آزاد کشمیر کی سیاست اس وقت ایک کھڑی بس کی طرح ہے جس کے اندر سب شور مچا رہے ہیں کوئی اپنی سیٹ پکی کر رہا ہے کوئی کھڑکی سے باہر جھانک کر تماشائیوں کو ہاتھ ہلا رہا ہے اور کوئی انجن کے نیچے جھک کر دیکھ رہا ہے کہ کہیں چابی غلط سمت تو نہیں گھمائی گئی۔ بس کے باہر عوام کھڑے ہیں، ہاتھوں میں امید کی ٹکٹیں لیے انہیں بس میں سوار ہونا ہے مگر دروازہ بند ہے ڈرائیور بدل رہے ہیں، مگر منزل وہی پرانی۔

اسلام آباد کی ایک چمکتی میز اور اس کے نیچے رکھا ہوا پنڈی کا دستخط شدہ بریف کیس قارئین کرام معاملہ بس اتنا سا ہے بس تیار ہے مسافر بے چین اور ڈرائیور اسٹیرنگ پر ہاتھ رکھنے کو بے تاب۔ مگر جب تک اصل دفتر سے فون نہیں آتا یہ بس اپنی جگہ سے نہیں ہلے گی چاہے انجن جل جائے یا قوم انتظار میں ٹھنڈی پڑ جائے پنڈی کا حکم نامے کے سامنے دنیا کی کوئی طاقت اس بس کو چلانے کی جرات نہیں رکھتی بس تماشہ دیکھتے جاو اور مزے لیتے جاو اور ہوسکے تو ان پنڈی والوں کو ساتھ ساتھ دعائیں بھی۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari