Behis Qaum Aur Chor Hukumran
بے حس قوم اور چور حکمران
یہ کہانی ایک ایسے معاشرے کی ہے جس کے گوشےگوشے ، چپے چپے میں مایوسی غفلت اور غربت کے گہرے بادل چھائے ہوئے تھے فضا آوارہ اور بیکار روحوں کی چیخ و پکار کی گونج سے وحشت زدہ دکھائی دیتی تھی حضرت انسان نشے اور لہو لعب کی لعنت میں ڈوبا ہوا تھا وہاں ترقی اور خوشحالی کا زرا برابربھی تصور کرنا نادانی کے متعفن تالاب میں ڈوب جانا تھا جہاں غربت افلاس نے قوم کی کمر توڑ کر بے جان کردیا تھا وہ تن آسانی اور کاہلی سے اقوم عالم میں تحقیر و تقصیر کا مطیع ومرکز بن چکے تھے۔
جوں جوں وقت کا پہیہ چلنے لگا کسمپرسی اور بے ترتیبی میں اضافہ ہونے لگا اور معیار زندگی کھٹن اور کثیف ہوتا گیا اس وقت نشاط ثانیہ دیوانے کے خواب کی مانند لگ رہی تھی خوش قسمتی سے اس تباہ حال قوم میں ایک مخلص رہنما نے جنم لیا جسکی انتھک کاوشوں نے کاہل، سست اور نشے کے مرض میں مبتلا قوم کو ایک محنت جفاکش قوم بنانے پر مجبور کردیا زمینی حقاِق بھی وہی لوگ بھی وہی جو پہلے نا اہلی کاہلی کا مرکب تھا۔
صرف ایک ہمدرد مخلص رہنما کی بدولت بدحالی سے خوشحالی کی جیتی جاگتی علامت بن گیا آج یہی قوم تمام اقوام عالم کے لئے مشعل راہ ثابت ہو رہی ہے اور اس قوم کے ڈنکے پوری دنیا میں بج رہے ہیں وہ کاہل نا اہل سست قوم آج محنت کش کے نام سے پکاری جاتی ہے۔ آج پوری دنیا میں اس قوم نے اپنا لوہا منوایا ہے بلکہ آج یہی سست اور کاہل قوم ایک مخلص رہنما کی رہنمائی کی بدولت سپر پاورز کی آنکھوں میں کھٹکتی نظر آرہی ہے اور سپر پاورز اس قوم سے خوف کھا رہے ہیں۔
یہ عظیم مخلص رہنما چین کا مائوزے تنگ تھا جس نے چینی قوم کی رگ وجان میں سادگی کام سے لگن اور خود انحصاری کے جرثومے داخل کردئے اب وہی کاہل اور بیکار قوم گوہر نایاب کا درجہ پانے لگے۔ آج پوری دنیا کیلئے ایک چیلنج بن گئے ہیں۔ اگر اس دنیا میں ترقی کرنی ہے تو خود انحصاری کے ساتھ ساتھ ایمانداری اور محنت کو اپنا شعار بنانا اور اس کو فروغ دینا ہوگا نہیں تو زندگی بھر ذلت اور رسوائی کا سامنا کرتے ہوئے گزرے گی جیسے ہماری گزر رہی ہے۔
ماوزے تنگ کے کامیابی اہم تین راز
محنت، ایمانداری اور تعلیم کا حصول
ان ہی اصولوں کو اپنا کر اس رہنما نے اپنی بیکار سست اور کاہل قوم کو ایک عظیم قوم بنانے پر مجبور کیا یہی وجہ ہے چین آج ترقی میں سب سے آگے ہے اور یہی تین چیزیں انکی کامیاب کا راز ہیں۔
اسی طرح ایرانی قوم بھی گندگی، غلامی اور عریانی کے بدمست مکروہ ماحول میں بے معنی اور زلت آمیز مردہ مجسمے کی صورت میں تسلسل جاں سے گزر رہی تھی اسوقت کے ایک شخص امام خمینی رح کی رہبری اور درس انقلابی نے آلودگی، بے حیائی اور غلامی کے سارے طوق اتار دئے وہی قوم اب صہیونی قوتوں کے لئے سیسہ پلائی دیوار ثابت ہو رہی ہے۔ اس لئے ایک مخلص دیانتدار لیڈر وقت کی اہم ضرورت ہے اور ایک مخلص اور ایماندار لیڈر ہی قوم کو پستی سے نکال کر بام عروج کو پہنچاتا ہے بلکہ ناقانل تسخیر بناتا ہے ایک دور اندیش محنتی ایماندار رہنما اس ملاح کی مانند ہوتا ہے جو بھنور میں پھنسی کشتی کو اپنی دانائی سے کنارے لگا دیتا ہے۔
انقلابی رہنماوں کی کہکشاں میں ایک نہایت روشن و تابندہ ستارہ رہنما ہمارے عظیم لیڈر قائداعظم محمد علی جناح رح ہیں انہوں نے اپنے خلوص محت اور قائدانہ صلاحیتوں اور عملی مثالوں کے ذریعے ایک اسلامی مملکت کے حصول صرف ممکن ہی نہیں بلکہ یقینی بنایا اور اپنے لازوال اصولوں اور دانائی سے مسلماناں برصغیر کی تاریک روحوں میں امید سحر کی شمعیں روشن کی اور ذہن و قلب کو منور کردیا مردہ ضمیروں میں حرارت ایمانی کی روح پھونک دی اور ایک باوقار اور بامقصد زندگی گزارنے کے اصول سکھائے اور ایک ایسے اسلامی ملک سے نوازا جو عالم اسلام کی امیدوں کا مرکز اور اسلام کا قلعہ کے طور پر آج پوری دنیا میں اپنی۔ مثال آپ ہے۔
ستم ظرفی یہ ہے کہ حیث من القوم ہم نے اپنے قائد کے وعدوں کا عہد و وفا نہیں کیا اور نہ اسکی پاسداری کی ہم نے انسانیت کی تمام حدیں پار کردی ہم انسانوں والی ایک بھی صفت نظر نہیں آتی بس انسانی ڈھانچے میں انسان لگتے ہیں کردار سے کہیں انسان کہلانے کے مستحق نہیں جیسے ہم بے ایمان مکار جھوٹی ملاوٹ سے بھرپور چوری چکاری بد عہدی قوم ہیں ویسے ہی حکمران اللہ نے ہمارے عملوں کو دیکھ کر ہم پر مسلط کئے ہیں یہ ہمارے اپنے گناہوں کی سزا ہے ہم نے اپنے گناہوں اور نرے فعلوں سے یہ حکمران بطور عذاب اپنے اور اپنی آنے والی نسلوں پر پوری طرح مسلط کئے ہیں۔ اب یہ بدیانت چور حکمرانوں سے جان چھڑانا ناممکن ہے اور نہ ہم میں جرآت ہے اور نہ ہمت ہم اپنے عملوں کے گنہگار ہیں جسکی سزا ایسے بے رحم اور سند یافتہ حکمرانوں کے عوض ہمیں مل رہی ہے ہم نہ خود بدلنا چاہتے ہیں اور نہ اسکی کوشش کرتے ہیں۔۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال اپنی حالت کے بدلنے کا
ہمارے اعمال اتنے آلودہ ہو چکے ہیں کہ اب ہمیں صحیح اور غلط کی پہچان کرنا اور اس کو سمجھنا ہی مشکل ہو گیا ہے ہمیں ایماندار چوز کرنا نہی آتا بلکہ ہم چاہتے ہی نہیں ہم خود بھی چوری جیسی بیماری کی عادت پڑ گئی ہے اور چور حکمران بھی اسی لعنت کا ہی عمل کا نعم البدل انعام ہے۔ ہماری نظروں کو نظر بھی آتا ہے پورے ہوش و حواس کے ساتھ چوروں کی چوریاں بھی نظر آتی ہیں لیکن ہم میں وہ اخلاقی جرآت ہی نہیں کہ چور کو چور کہہ سکیں کیونکہ ہم بزات خود کسی نہ کدی شکل میں چور ہیں ہمارے اندر کا چور باہر کے چور کو چور کہنے کی اجازت اور جرآت نہیں کرتا۔
اگر ہم نے ان بدیانت حکمرانوں سے جان چھڑانی ہے تو ہمیں خود کے اندر تبدیلی لانی ہوگی اپنے آپکو بدلنا ہوگا اپنی طرز زندگی اور سوچ کو بدلنا ہوگا تب جا کر کہیں ہم ان بدیانت حکمراموں سے جان چھڑانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں ورنہ ناممکن ہے۔ ورنہ ہم بے حس قوم اور چور حکمران رہتی دنیا تک یوں ہی چلتے رہیں گے۔