Bad Mizaj Aurat Shohar Ke Liye Azab Hai (1)
بدمزاج عورت شوہر کے لئے عذاب ہے (1)

کبھی کسی نے غور کیا ہے کہ مرد کے چہرے پر عمر کے ساتھ جو پژمردگی اکتاہٹ اور بیزاری اُتر آتی ہے وہ صرف وقت یا غربت کا صدقہ نہیں ہوتی؟ وہ دراصل اس داخلی شکست کا عکس ہوتی ہے جو اُس دل میں جنم لیتی ہے جہاں کبھی سکون کی سلطنت ہوا کرتی تھی وہی سلطنت جو عورت کے لمس، اس کی نرمی اور اس کی زبان کی مٹھاس سے آباد رہتی ہے وقت مرد کے جسم کو ضرور کمزور کرتا ہے، مگر اس کی روح کو یا تو عورت مضبوط رکھتی ہے، یا وہی روز تھوڑا تھوڑا توڑتی ہے۔
دنیا جب کسی بیزار بوڑھے مرد کو دیکھتی ہے تو کہتی ہے، یہ تو وقت کا اثر ہے مگر وقت بے قصور ہوتا ہے اصل کہانی اکثر باورچی خانے کے دروازے بیڈروم کی خاموشی اور صحن کے اکیلے بینچ پر لکھی جا چکی ہوتی ہے بیوی کا کردار چولہے جھاڑو یا بچوں کی پرورش تک محدود نہیں وہ مرد کی ذات کا داخلی موسم ہے اس کی بہار بھی اس کی خزاں بھی اس کے لبوں کی گرمی مرد کے اعصاب میں بجلی دوڑاتی ہے اور اس کے لہجے کی سردی مرد کے اندر برف جما دیتی ہے عورت کا سب سے بڑا ہتھیار تلوار نہیں، زبان ہے یہی زبان کبھی شفا دیتی ہے کبھی زخم یہی زبان اسکی اپنی زندگی کا سکون چھین لیتی ہے
ایک نرم جملہ مرد کے اندر کے پہاڑ ہلا دیتا ہے اور ایک تلخ لفظ اس کے ارادوں کا ستون گرا دیتا ہے دنیا میں مرد روز کتنے ہی محاذوں پر لڑتا ہے دفتر کی سیاست روزگار کی تنگی زمانے کی رعونت اور ذمہ داریوں کے پہاڑ مگر شام کو جب وہ گھر لوٹتا ہے تو اسے نہ کسی جنگ کی ضرورت ہوتی ہے نہ کسی مقدمے کی وہ صرف اتنا چاہتا ہے کہ دروازہ کھلے اور سامنے کوئی ایسا چہرہ ہو جس کے تاثرات میں اطمینان ہو جس کی آنکھوں میں طعنہ نہیں، سکون ہو وہ چہرہ جو اس کے تھکے ہوئے دل کو تسکین دے، نہ کہ نئے حساب مانگے اگر عورت صرف یہی لمحہ سنبھال لے تو وہ اپنے شوہر کو بیمار سے تندرست مایوس سے پُرعزم اور بوڑھے سے پھر جوان بنا سکتی ہے مگر افسوس ہمارے گھروں میں محبت کا رشتہ اکثر میدانِ جنگ بن گیا ہے شوہر کی بات پر نرمی کی جگہ طنز اختلاف پر گفتگو کی بجائے جھڑکنا اور مکالمے کی جگہ مقابلہ آرائی یوں لگتا ہے جیسے دو دشمن قبیلے ایک ہی چھت تلے تلواریں سونت کر رہنے پر مجبور ہوں۔
وہ عورت جو شوہر کے ہر جملے کو چیلنج سمجھتی ہے مقابلہ بازی کرتی ہے جو اس کے فیصلے کو چیلنج بنا لیتی ہے وہ بھول جاتی ہے کہ مرد سے جنگ جیت کر وہ کبھی بھی سکون نہیں جیت سکتی۔
ایسا مرد پھر لڑنا چھوڑ دیتا ہے مگر جینا بھی چھوڑ دیتا ہے یاد رکھیے شوہر کے ساتھ نرمی اور اطاعت غلامی نہیں فطرت کی ترتیب ہے عورت جب شوہر کو عزت دیتی ہے تو وہ بادشاہ نہیں محافظ بن جاتا ہے۔ جب عورت اس کے لہجے کو نرم کرتی ہے، تو مرد کے دل میں شکر کی ندی بہہ نکلتی ہے۔ لیکن جب وہ ہر بات پر حکم چلانے لگے، برابری کے نام پر کشمکش شروع کرے، تو گھر آہستہ آہستہ محبت کے قبرستان میں بدل جاتا ہے۔ ایک عورت اگر چاہے تو چند نرم رویوں سے اپنے شوہر کی پوری دنیا بدل سکتی ہے صبح کی ایک مسکراہٹ، دن میں دو تعریفی جملے شام کی خاموش تسکین اور اختلاف کے وقت مکالمہ۔ یہ چھوٹے چھوٹے اعمال ہیں مگر انہی سے مرد کے اندر کی بہار زندہ رہتی ہے۔
اگر صبح طنز سے آغاز ہو دوپہر طعنوں سے گزرے شام بحث میں ڈوب جائے اور رات جھگڑے پر ختم ہو تو پھر کوئی مرد چاہے جوان ہو یا ادھیڑ عمر چند برسوں میں اندر سے بوڑھا ہو جاتا ہے۔ مرد کی جوانی صرف جسم کی طاقت نہیں، روح کی تازگی ہے جس مرد کو گھر میں عزت اور سکون ملتا ہے وہ باہر دنیا کے طوفانوں کو بھی مسکرا کر جھیل لیتا ہے۔ لیکن جسے گھر میں ہی بے توقیری بدکلامی اور بے رخی ملے، وہ باہر جیت کر بھی اندر سے ہارا ہوا ہوتا ہے۔ دیکھیے وہ بیویاں جو اپنے شوہروں کے جذبات کا احترام کرتی ہیں ان کی باتوں کو اہمیت دیتی ہیں ان کے چہروں پر خوشی دیکھنا چاہتی ہیں ان کے شوہر بڑھاپے میں بھی مسکراتے ہیں۔
ایسے مردوں کی آنکھوں میں چمک ہوتی ہے کیونکہ وہ روز اپنی بیوی کی نظروں میں اپنی عزت دیکھتے ہیں اور جو مرد روز اپنی بیوی کی زبان سے زہر سنتا ہے وہ چند سالوں میں مایوسی کے اندھیرے میں گم ہو جاتا ہے۔ مرد کو بدلنے کا سب سے طاقتور ذریعہ عورت کا رویہ ہے نہ وعظ نہ تقاریر نہ ملامتیں۔ محبت نرمی، عزت اور صبر یہ وہ جادو ہیں جو سب سے ضدی اور تھکے ہوئے مرد کو بھی بدل دیتے ہیں آخر میں عورت سے ایک سوال اگر آپ کے شوہر کے چہرے سے مسکراہٹ مٹ گئی ہے اس کے لہجے میں تلخی آ گئی ہے وہ خاموش بیزار یا بیمار نظر آتا ہے تو ذرا لمحہ بھر کے لیے آئینہ دیکھئے کیا یہ زخم زمانے نے دیا ہے یا آپ کے رویے نے؟
کیونکہ حقیقت یہ ہے مرد کو زمانہ نہیں توڑتا عورت توڑتی ہے یا وہی سنوار دیتی ہے یہ تحریر الزام نہیں آئینہ ہے جس میں ہر عورت اور ہر مرد اپنا عکس دیکھ سکتا ہے گھر اگر سلطنت ہے تو مرد اس کا بادشاہ نہیں، عورت اس کی روح ہے اور جب روح بگڑ جائے، تو سلطنتیں بھی بکھر جاتی ہیں کچھ بیویاں گھر کی برائیاں خاص طور پر اپنے مزاجی خدا کی دوسرے گھروں میں جا کر بیان کرتی ہیں، یہ نہیں سوچتیں کہ وہ اسی کی شریکِ سفر ہیں۔ یہ بے عقلی کی انتہا ہے، اپنے جسم سے بے پردگی۔ ایسی عورتیں نہ شوہر کے دل میں مقام بناتیں، نہ اللہ کے ہاں۔
نوٹ: میں ایک غیر جانب دار داعی ہوں۔ اس آئینے کا دوسرا رُخ یعنی مردوں کے رویوں پر مبنی تحریر بھی مکمل ہونے کے قریب ہے تاکہ توازن قائم رہے اور احتساب دونوں سمتوں میں ہو انشاءاللہ حصہ دوم بہت جلد قارئین کی نظر کردیا جائے گا۔

