Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shair Khan
  4. Bache Ki Bhi Sunen

Bache Ki Bhi Sunen

بچے کی بھی سنیں

وہ جیتا جاگتا بچہ تھا اپنی آنکھوں میں خواب نہیں صرف تحفظ مانگ رہا تھا مگر بدقسمتی سے وہ مدرسے گیا وہ جگہ جو قرآن کی پناہ بننی تھی وہی اس کے لیے قبر بن گئی۔ مدرسہ؟ نہیں صاحب! یہ دینی مدرسہ نہیں سفاکی کی فیکٹری تھی معلم نہیں بھڑیا تھا جہاں نہ ریاست کی نظر نہ قانون کی رسائی نہ ماں باپ کی ذمہ داری اور نہ سماج کا ضمیر بچہ رو کر کہتا رہا مہتمم کے بیٹے کے مطالبات غلیظ ہیں۔

مجھے مت بھیجو مجھے ان درندوں سے بچالو میری عزت خطرے میں ہے چچا نے پیار سے نہیں غیرت سے ڈانٹا بلکہ جہالت سے ڈانٹا اور بچے کی آواز کو دبا دیا اور اوپر وہی گھسے پیٹے فرسودہ جملے شرم نہیں آتی؟ استاد پر الزام لگاتے ہو! باپ نے ویڈیو کال پر تربیت دی بغیر تصدیق کے علم حاصل کرنا ہے یا تماشا بننا ہے پھر کیا ہوا؟ بس شام کو فون آیا انہی انسانیت کے روپ میں درندوں کا۔

بچے کی لاش مدرسے سے آ رہی ہے۔ کوئی بتائے، قتل صرف لاٹھی سے ہوتا ہے؟ یا بے یقینی، بے حسی اور اندھی عقیدت سے بھی؟ چچا اور باپ قاتل نہیں تو کون ہے؟ جنہوں نے ایک بچے کی چیخ کو جھوٹ سمجھا اور مہتمم کی داڑھی کو سچ۔ وہ بچہ جس کی زبان بند کر دی گئی جسم پر زنجیروں کے نشانات تھے اور روح پر قوم کے ہر منافق فرد کا دستخط۔ مدرسے کی دیواروں سے سچ ٹپک رہا تھا مگر ہماری آنکھیں شرم سے بند۔ سوال یہ ہے کیا ہم نے کبھی مدرسے کی رجسٹریشن چیک کی؟ کیا بچے کے رجحان کو جاننے کی کوشش کی؟ کیا ہم نے سوچا کہ وہ عالم بننے کے لیے بھیجا گیا، یا ظلم سہنے کے لیے؟ نہیں صاحب ہم نے بچے کو بس "دینی فیکٹری" کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا، جیسے کوئی بکری قصاب کے حوالے کی جاتی ہے۔

نہ چہرہ دیکھا نہ آواز سنی، نہ درد محسوس کیا۔ مدرسہ، ماں باپ، چچا، معاشرہ، سب قاتل ہیں اور وہ بھی جو اب تک خاموش ہیں جو سمجھتے ہیں یہ اکثر ہو جاتا ہے جو کہتے ہیں بچے بہانے بناتے ہیں اور جو فتویٰ بازوں کی زبان میں خدا کا دین تلاش کرتے ہیں یہ صرف مدرسوں کا مسئلہ نہیں۔ یہ ایک دم توڑتا سماجی ضمیر ہے جہاں بچہ چیختا ہے اور جواب میں اسے تعویذ دیا جاتا ہے، تحقیق نہیں۔ سوچیے! اگر وہ بچہ زندہ رہ جاتا تو کیا ہوتا؟

یا تو روز اپنی عزت نفس دفن کرتا اور استاد کے بیٹے کی غلامی کرتا یا گھر بھاگ کر چور بن جاتا یا سب سے خطرناک وہ خود قاتل بن جاتا۔ کیونکہ جس سے درد سیکھا جائے، وہی ایک دن نفرت سکھا دیتا ہے ہم نے اس قوم کو حافظ تو بنا دیا مگر انسان بنانا بھول گئے۔ ہم نے مدرسہ محفوظ بنایا مگر بچے کو غیر محفوظ چھوڑ دیا۔ ہم نے داڑھی میں لپٹے بھیڑیئے دیکھے مگر کردار نہیں ہم نے وعظ سنا، درد نہیں۔ یہ وقت ہے چیخنے کا، جاگنے کا اور سوال اٹھانے کا۔ ہر والدین کو سوچنا ہوگا کیا میں بچے کا محافظ ہوں یا قاتل؟ کیا میں تربیت کر رہا ہوں یا صرف رواج نبھا رہا ہوں؟ کیا میں مدرسے کی جانچ کر رہا ہوں یا بس ٹوپی پہن کر مطمئن ہوں؟

حکومت سے زیادہ سماج کو اپنی عدالت لگانی ہوگی۔ والدین کو رجحان کو پڑھنا ہوگا، نہ کہ روایت کو۔ مدرسوں کو قانون کے تابع کرنا ہوگا، نہ کہ جذبات کے اور بچوں کو اظہار کی آزادی دینی ہوگی، نہ کہ صرف فرمانبرداری کی تلقین آج ایک بچہ مر گیا، کل دوسرا مرے گا پرسوں شاید آپ کا اپنا۔ بچوں کی حفاظت کیجیے اسکی بات کو اہمیت دیجئے اور غور کیجئے ورنہ قبر میں نہ ضمیر معاف کرے گا اور نہ اللہ۔ ایسے واقعے ہم سب کے لئے آلام کی حیثیت رکھتے ہیں اپنے بچوں کی تربیت کیجئے اور انہیں سمجھائے اگر کوئی استاد، وین کا ڈرائیور یا راستے میں آتے جاتے کوئی بھیا تنگ کرے یا کوئی غلیظ حرکت نازیبا الفاظ بولے تو اسکو نہ چھپائے بلکہ گھر میں آکر اپنے بڑوں کو بتائے تاکہ بروقت اس کا شباب ہوسکے نہیں تو پھر کہانی بن کر کل معاشرے میں بدنامی کا سبب ہوگی۔

Check Also

Bani Pti Banam Field Marshal

By Najam Wali Khan