Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shair Khan
  4. Babusar Ki Bebas Sham

Babusar Ki Bebas Sham

بابوسر کی بے بس شام

بابوسر کی پرشکوہ وادیاں جہاں ہوا بھی نرمی سے گنگناتی ہے جہاں بادل زمین کو چھونے آتے ہیں جہاں وقت تھم سا جاتا ہے وہی وادیاں اُس شام ماتم کناں تھیں۔ اُن بلند پہاڑوں کی چھاتی پر ایک چیخ گونجی ایک درد بھری آہ نے فضا کو چیر ڈالا اور وادی بابوسر بے بسی کی تصویر بن گئی۔

پنجاب لودھراں سے آنے والا ایک ہنستا بستا خاندان ڈاکٹر سعد، ان کی شریکِ حیات ڈاکٹر مشعل، ننھا بیٹا اور پیارے بھائی فہد سب ایک خواب آنکھوں میں لیے نکلے تھے خواب کہ زندگی کو ایک اور خوبصورت لمحے میں قید کریں گے خواب کہ فطرت کی گود میں کچھ سانسیں بھر لیں گے۔ مگر وہ نہیں جانتے تھے کہ فطرت بھی کبھی اچانک اپنے رنگ بدل لیتی ہے وہ خواب جن میں خوشبو تھی، ہنسی تھی، امید تھی منصوبے تھے اچانک ایک ڈراؤنے خواب میں تبدیل ہوگئے جو تمام منصوبوں کو روندتے ہوئے شام کے پہاڑوں میں بے بسی کی تصویر بنے ایک ایسا خواب جس سے جاگنے کی کوئی صورت نہیں۔

بابوسر ٹاپ پر عکس بندی کے لمحے حسین نظارے، قہقہے، سب پل بھر میں تاریخ کا حصہ بن گئے۔ جیسے ہی قافلہ نیچے اُترنے لگا موسم نے انگڑائی لی۔ آسمان پر کالے بادل چھا گئے بارش کا ایک تیز جھونکا آیا اور پھر ہر طرف صرف پانی ہی پانی۔۔ مگر یہ پانی زندگی کا نہیں موت کا پیغام لیے آیا تھا نالوں نے بپھر کر شاہراہ بابوسر کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ پانی سیٹیاں بجاتا، شور مچاتا آیا اور دیکھتے ہی دیکھتے زندگی کا قافلہ بہا لے گیا۔ مشعل، وہ مشعل جو دوسروں کی زندگی روشن کرتی تھی بجھ گئی۔ ننھا شہزادہ، جو شاید پہلی بار اتنے اونچے پہاڑ دیکھ رہا تھا، فطرت کی بے رحمی کا پہلا شکار بن گیا۔

بھائی فہد، جو شاید ہر لمحہ اپنے بھائی کا سہارا تھا ایک لمحے میں بےسہارا ہوگیا اور ان سب کا درد، ان سب کی چیخیں صرف ڈاکٹر سعد کی آنکھوں میں محفوظ رہ گئیں جو آنکھ شمالی علاقوں کے خوبصورت منظر دیکھنی آئی تھیں غضبناک اور درد ناک منظروں کی نظر ہوگئیں یہ بے بسی کا وہ عالم تھا جہاں انسان بے بس ہوجاتا ہے۔

خود بچ جانا کبھی کبھی سب سے بڑا عذاب ہوتا ہے اُس لمحے کو یاد کرنا جب اپنے ہی خون کو پانی میں بہتا دیکھا، اپنی ہی دنیا کو ڈوبتے دیکے اور کچھ نہ کر سکنے کا احساس۔۔ یہ منظر کسی قیامت سے کم نہیں میں اس دکھ بھری کہانی کو لکھ بھی رہا ہوں اور آنکھوں سے آنسوؤں کی روانی ہے اور کہانی بھی اسی درد سے جاری ہے ہاتھ لکھتے لکھتے تھر ٹھرا رہا ہے مگر اس بے شام کی بے بس شام کا منظر پر نہ چاہتے ہوئے بھی یہ کہانی جاری ہے۔

بابوسر کی وہ شام فطرت کے نوحے میں ڈھل گئی۔ پہاڑ خاموش کھڑے تھے آسمان افسردہ اور فضائیں سوگوار۔ شام ڈھلتی گئی، درد بڑھتا گیا اور زندگی بے بسی کی مورت بن گئی جیسے کوئی کھلی آنکھوں سے خواب دیکھ رہا ہو۔ اللہ کی مرضی کے آگے انسان کی کوئی بساط نہیں۔ قدرت جب فیصلہ سناتی ہے تو کسی کی فریاد نہیں سنی جاتی مگر اے ربِ کریم! یہ تیرا فیصلہ۔ اس قدر تلخ؟ اس قدر کٹھن؟ ان کے خوابوں کا کیا جو ابھی مکمل نہ ہوئے تھے؟ اس ہنستے بستے گھر کا کیا جو پل بھر میں مٹی میں مل گیا؟

یااللہ! دشمن کو بھی یہ بے بسی نہ دکھانا۔ یہ منظر کہ اپنی آنکھوں کے سامنے اپنی دنیا کو بکھرتا دیکھنا اپنے جگر گوشوں کو چھینتا پانی اور بے حس موسم یہ سب کچھ انسان کو اندر سے کھوکھلا کر دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ مرحومین کو جوارِ رحمت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ڈاکٹر سعد کو اور دیگر لواحقین کو صبر جمیل کی دولت عطا کرے۔ یہ تحریر، ایک نوحہ ہے اُن خوابوں کے لیے جو ادھورے رہ گئے اُن قہقہوں کے لیے جو ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئے اور اُس شام کے لیے جو کبھی ختم نہیں ہوگی۔

Check Also

Bani Pti Banam Field Marshal

By Najam Wali Khan