Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shair Khan
  4. Astor Ke Siasi Aeene Mein Naye Wazir e Aala Ki Amad

Astor Ke Siasi Aeene Mein Naye Wazir e Aala Ki Amad

استور کے سیاسی آئینے میں نئے وزیرِ اعلیٰ کی آمد

استور وہ پہاڑی وادی جہاں ہر پتھر کی خاموشی میں تاریخ کی سرگوشیاں چھپی ہوئی ہیں آج ایک نئے سیاسی سفر کے آغاز کے منظر سے گواہ ہے۔ سابق جسٹس یار محمد صاحب جو اس وادی کے پہلو بہ پہلو کھڑے رہ کر عدل و انصاف کی علامت سمجھے جاتے ہیں اب کیئر ٹیکر وزیرِ اعلیٰ کے منصب پر فائز ہوئے ہیں ذاتی اور دلی طور پر ان کی یہ کامیابی خوش آئند ہے مگر جیسے ہر پہاڑ کے سائے میں خالی وادی چھپی ہوتی ہے ویسے ہی اس منصب کی روشنی کے پیچھے بھی کئی سیاسی حقیقتیں پوشیدہ ہیں۔

ہماری متعدد ہم خیال رائے رکھنے والی جماعتیں اس تقرر پر متفق نہیں ہیں اور ان کے اختلافات بذات خود اس وادی کی پیچیدہ سیاسی حقیقت کی عکاسی کرتے ہیں مگر اس سب کے باوجود یار محمد صاحب کی شخصیت اور منصب کا احترام لازم ہے کیونکہ سیاسی رنگ و برق کے باوجود انسانی عظمت اور خدمت کا معیار اپنی جگہ قائم رہتا ہے۔

یار محمد صاحب کے بارے میں عمومی تاثر یہی ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ بالخصوص عسکری اداروں کے قریب سمجھے جاتے ہیں۔ موجودہ حالات میں مسلم لیگ (ن) بھی اسی نظام کا حصہ ہے جو اکثر اپنی روایتی راہوں سے ہٹ کر سوچنے کی گنجائش نہیں دیتا۔ اس پس منظر کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اس نئے سیٹ آپ کے ذریعے استور کے سیاسی اور انتظامی حالات میں بنیادی یا بڑی تبدیلی کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں بلکہ موجودہ سسٹم کو دیکھتے اور سمجھتے ہوئے کبھی بھی انصاف پر مبنی الیکشن ممکن نہیں ہے۔

ہر کسی کے منہ کو لہو لگ چکا ہے تو پھر انصاف اور شفاف انتخابات کیسے ہونگے پچھلے پانچ سالوں کی حقیقت ایک تلخ سبق ہے مسلم لیگ (ن) نے استور کے عوامی ووٹوں سے منتخب شدہ وزیرِ اعلیٰ کے حق کو ذاتی انا اور باہمی رقابت کی نذر کر دیا جب سوچ کا معیار اس نہج تک پہنچ جائے تو وہاں بہتری کی توقع رکھنا آسان نہیں رہتا عوام کی امیدیں جیسے پہاڑوں کی وادیوں میں بہتے چشموں کی طرح ہیں مگر سیاسی فیصلے ان چشموں کے بہاؤ کو محدود کر دیتے ہیں۔

استور کے عوام آج بھی انتظار میں ہیں انتظار اس روشنی کا جو سیاسی اندھیروں میں ظلم پر مبنی نظام کو چیر سکے اور اس وہم و گمان سے آزاد کر سکے جو ہر نئے سیٹ آپ کے بعد پیدا ہوتا ہے۔ یار محمد صاحب کی آمد ایک علامت ہے مگر وہ علامت زیادہ تر احترام اور ذمہ داری کی ہے حقیقی تبدیلی کی نہیں۔ سیاسی حقیقت اور عوامی توقعات کے درمیان یہ خلا ویسا ہی موجود ہے جیسا کہ پہاڑوں کے سائے وادیوں پر ڈالتے ہیں گہرائی میں اندھیرا مگر سطح پر روشنی استور کے سیاسی آئینے میں یہ نیا عکس اگرچہ خوش آئند ہے مگر پرانی حقیقتیں پرانی رقابتیں اور پرانی ناکامیاں ابھی بھی اپنے اثرات دکھا رہی ہیں۔

اس منظر نامے میں عوام کی امیدوں کو حقیقی سمت دینے کے لیے نہ صرف نئے ارادے بلکہ پرانے سیاسی تصورات کو توڑنے کی بھی ضرورت ہے بصورت دیگر ہر نیا سیٹ آپ محض پرانی کہانی کا نیا باب بن کر رہ جائے گا اور استور کی وادی کے خاموش پتھر اس حقیقت کے گواہ رہیں گے یہاں سوائے نا انصافی کے کچھ نہیں ہوا۔

Check Also

Mian Muhammad Baksh (19)

By Muhammad Sarfaraz