Apna Leader, Apna Molvi
اپنا لیڈر، اپنا مولوی

کہتے ہیں محبت اندھی ہوتی ہے اور اگر محبت سیاسی یا مذہبی ہو تو پھر بندہ صرف اندھا نہیں ہوتا بہرا بھی ہو جاتا ہے، گونگا بھی، جاہل بھی اور اکثر اوقات بدتمیز بھی اپنا لیڈر کیا کہہ رہا ہے دلیل کی ضرورت نہیں وہ جو کہے گا وہی حق ہوگا۔ شخصیت پسندی (Personality Worship) ایک ایسا فکری زوال ہے جو کسی فرد، لیڈر، یا مذہبی شخصیت کو عقل، دلیل اور حقائق سے بالاتر مقام دے دیتا ہے۔ یہ بیماری صرف سیاسی یا مذہبی حلقوں تک محدود نہیں بلکہ سماج کے ہر طبقے میں سرایت کر چکی ہے۔
ہم کسی شخص کو اس کی خوبیوں یا کارکردگی کی بنیاد پر نہیں بلکہ اس کے چہرے، نام، یا تعلق کی بنیاد پر معصوم و معزز مان لیتے ہیں اور اس کی ہر بات کو حرفِ آخر سمجھنے لگتے ہیں۔ شخصیت پسندی ہمیں اندھی تقلید کی طرف لے جاتی ہے۔ ہم اچھے اور برے کی تمیز کھو بیٹھتے ہیں۔ اگر ہمارا پسندیدہ لیڈر یا مذہبی پیشوا غلطی کرے تو بھی ہم اس کا دفاع کرتے ہیں، حالانکہ وہی عمل کسی دوسرے سے سرزد ہو تو ہم اس پر کڑی تنقید کرتے ہیں۔ یہ دوہرا معیار معاشرے کو تقسیم، انتشار اور نفرت کی طرف لے جاتا ہے۔
شخصیت پرستی دراصل عقل کی شکست ہے۔ یہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو مفلوج کر دیتی ہے۔ ہمیں افراد کے بجائے اصولوں سے وفادار ہونا چاہیے۔ اگر کوئی فرد اصولوں کی پاسداری کرے تو وہ قابلِ تعریف ہے اور اگر وہ اصولوں کی خلاف ورزی کرے تو تنقید بھی اس کا حق بنتی ہے چاہے وہ کتنا ہی بڑا نام کیوں نہ ہو۔ اگر ہم ایک مہذب، بیدار اور ترقی یافتہ معاشرہ چاہتے ہیں تو ہمیں شخصیت پسندی سے باہر نکلنا ہوگا۔
ہمیں افراد کی اندھی عقیدت کے بجائے ان کے عمل، سوچ اور اخلاقی رویوں کو پرکھنا ہوگا۔ جب تک ہم اپنی رائے، سوچ اور فیصلے کسی شخصیت کی مرضی کے تابع رکھیں گے تب تک نہ ہم آزاد ہوں گے نہ سچ بول سکیں گے اور نہ ہی کبھی صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط کہنے کی ہمت پیدا ہوگی۔ شخصیت پسندی محض ایک فکری کمزوری نہیں بلکہ معاشرتی بیماری ہے۔ اس کا علاج علم، شعور اور سچائی سے ممکن ہے۔ ہمیں افراد کے بجائے اصولوں کو اپنا رہنما بنانا ہوگا، کیونکہ قومیں اصولوں پر بنتی ہیں، شخصیات پر نہیں۔
اپنا مولوی کیا سنا رہا ہے قرآن، حدیث یا عقل و شعور کی تمیز بھول جاؤ، وہ جو بولے گا وہی دین ہے بس یہی بیماری ہے میرے عزیزو، جو ہمارے رشتوں کو ہمارے گاؤں محلوں کو یہاں تک کہ ایک ہی ماں کے بطن سے پیدا ہونے والے بھائیوں کو ایک دوسرے کا دشمن بنا چکی ہے۔ آج باپ تحریکِ انصاف میں ہے بیٹا ن لیگ میں اور بیوی مولانا کی مریدنی ہے گھر نہیں رہا سیاسی تھانہ یعنی اکھاڑا بن چکا ہے ہر کوئی اپنے نظریے کا مجاور اور دوسرے کے ایمان کا مفتی بن چکا ہے۔ بھائی بھائی کے گریبان پر ہے اور سوال یہ بھی نہیں کہ کس نے سچ کہا، بلکہ یہ ہے کہ کس نے کہا؟ اگر لیڈر نے کہا تو سچ اگر مخالف نے کہا تو جھوٹ۔ اگر اپنے مولوی نے کہا تو عین دین، ورنہ گستاخی۔
ارے بھائیو! ان لیڈروں کو آپ کی پرواہ ہوتی تو وہ کبھی آپ کو سڑکوں پر مرواتے؟ ان مولویوں کو آپ کی فکر ہوتی تو وہ منبر سے محبت کا سبق سکھاتے، لاشیں گننے کے فتوے نہ دیتے کبھی سوچا ہے وہ کون سی طاقت ہے جو ہمیں آپس میں لڑوا رہی ہے وہی جو محبت کو تعصب، دلیل کو جھوٹ اور اختلاف کو دشمنی میں بدل چکی ہے۔ ہم نے خدا کو چھوڑ کر رہنما بنا لیے ہیں اور ان رہنماؤں نے ہمیں بیوقوف بنانا اپنا مشن سمجھ لیا ہے بلکہ دوسرے لفظوں میں ہماری آپس کی دشمنی انکی ڈال گھل رہی ہوتی ہے انکے بچے اسمیں پل رہے ہوتے ہیں معاشرے سے وابستہ یہ ماحول ایک آگ کی بھٹی ہے۔ ہر طرف نفرت کا ایندھن جھونکا جا رہا ہے۔ ایک دوسرے سے نظریاتی بدبو آتی ہے اور ہم محبت کے بجائے پارٹیاں مسلک، فرقے اور شخصیتیں چومنے میں مصروف ہیں۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے
فرشتوں سے افضل انسان بننا
مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ
اور ہم وہی محنت جھوٹے نعروں، جعلی ویڈیوز کے لیے کر رہے ہیں۔ ارے ذرا رک کے سوچو کیا اللہ تم سے یہ چاہتا ہے کہ تم اپنے بھائی کا خون بہاؤ صرف اس لیے کہ وہ تمہاری پارٹی یا مکتب فکر سے نہیں؟ سچ پوچھو تو ہم سب سچ سے ڈرتے ہیں اس لیے نہیں کہ وہ تلخ ہے بلکہ اس لیے کہ سچ ہمیں اپنا چہرہ دکھاتا ہے اور ہمارا چہرہ افسوس اب انسان کا نہیں رہا۔
ابھی بھی وقت ہے
نکلو اس سیاسی جنون سے
نکلو اس مذہبی ہٹ دھرمی سے
بس انسان بنو
رحمت بنو
نرم دل بنو
اس معاشرے کی ضرورت بنو ورنہ ایک دن یہی نفرت تمہیں نگل جائے گی اور تاریخ ایک اور صفحے پر لکھ دے گی یہ قوم لیڈر شخصیت پرستی کی غلامی میں انسانیت بھول گئی تھی بلکہ اپنے آپکو بھی بھول بیٹھی تھی۔

