Sunday, 14 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shair Khan
  4. Amjad Advocate Ka Eteraf Bebasi Ka Noha

Amjad Advocate Ka Eteraf Bebasi Ka Noha

امجد ایڈووکیٹ کا اعتراف بے بسی کا نوحہ

گلگت بلتستان کی سیاست ہمیشہ سے طاقت کے ایوانوں کے سائے میں لکھی جاتی رہی ہے۔ آج اسکا برملا اظہار بھی دیکھنے کو ملا مگر کبھی کبھار تاریخ کے اس اسٹیج پر کوئی کردار خود ہی اپنی کہانی کا راز کھول دیتا ہے۔ امجد ایڈووکیٹ کا یہ اعتراف کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی مدد کے بغیر خالد خورشید کو نہیں ہٹا سکتے تھے درحقیقت ایک سیاسی ناکامی نہیں بلکہ سیاسی کمزوری کا برہنہ اعتراف ہے۔ یہ اقرار ہمیں یہ بتاتا ہے کہ جب سیاسی میدان میں ہمت جواب دے جائے جب اصول کمزور پڑ جائیں جب عوامی طاقت ہاتھ سے پھسل جائے تو پھر طاقت کے دروازوں پر دستک دینے والا سیاست دان اپنی نہیں بلکہ اپنی کمزوری کی گواہی دے رہا ہوتا ہے۔

سیاسی مردانگی کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ کھلاڑی آخری گیند تک اپنی طاقت اپنی اہلیت اور اپنے اصولوں پر لڑے مگر جب کوئی لیڈر اپنے قد کو بڑھانے کے لیے غیر جمہوری سہاروں کے تختے پر چڑھتا ہے تو وہ دراصل اپنی شکست پر مہر لگا رہا ہوتا ہے۔ ایسی فتح کوئی فخر نہیں دیتی یہ تو بس دھاندلی شدہ تحریریں ہیں جو اقتدار کے کاغذ پر لکھی تو جاتی ہیں مگر ضمیر کے صفحوں پر کبھی قبول نہیں ہوتیں۔

خالد خورشید کی کارکردگی پر تنقید کرنا اب امجد ایڈووکیٹ کے لیے خود اپنا مذاق اڑانے کے مترادف ہے کیونکہ جس مقابلے کا فیصلہ اصولوں اور کارکردگی سے نہیں بلکہ طاقت کے کسی خفیہ کمرے میں ہو اس کی جیت بھی جعلی اور اس کی ہار بھی جعلی ہوتی ہے تاریخ بڑی بے رحم ہے یہ کبھی کسی کی زبان سے نکلے ہوئے سچ کو ضائع نہیں جانے دیتی۔

گلگت بلتستان کی سیاست میں امجد ایڈووکیٹ کا تازہ اعتراف کوئی سیاسی بیان نہیں ایک طمانچہ ہے خود ان کے اپنے چہرے پر یہ اعتراف وہی ہے جو سیاسی سستی ذہنی بدحواسی اور اخلاقی دیوالیہ پن کی آخری قسط میں لکھا جاتا ہے۔

سیاست دان جب اپنی لڑائی اپنی ٹانگوں پر نہیں لڑ سکتے تو پھر وہ کسی دروازے کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور یہی ہوا امجد صاحب نے گویا پوری قوم کو بتا دیا کہ وہ سیاست کے میدان کے کھلاڑی نہیں طاقت کے کمرے کے دربانوں کے در پر بیٹھے امیدوار تھے خالد خورشید سے ان کا معرکہ اصولوں کا نہیں تھا بس ایک سیاسی حسد تھا جسے پورا کرنے کے لیے انہوں نے وہی پرانا راستہ چُنا جس پر چل کر نہ عزت ملتی ہے نہ قد بڑھتا ہے نہ تاریخ میں نام ٹھہرتا ہے

یہ وہی سیاست ہے جس میں سینہ کوٹ کر مردانگی کی باتیں کی جاتی ہیں مگر اندر سے ہمت کا بلب پہلی ہوا میں بجھ جاتا ہے سیاست میں اپنی طاقت پر لڑنے والا تو آخری اوور تک ٹکا رہتا ہے اور جو اپنی سیاسی رائے کو کسی خفیہ ہاتھ کے اشارے کے بغیر حرکت نہیں دے سکتا وہ نہ لیڈر ہوتا ہے نہ کھلاڑی بس اقتدار کا محتاج ایک مختصر سا نوٹ ہوتا ہے جو چند دن بعد پھٹ کر کوڑے میں جا گرتا ہے۔ امجد صاحب نے جو اعتراف کیا ہے وہ دراصل یہ اعلان ہے کہ مجھے سیاسی شکست کا خوف تھا اس لیے میں طاقت کے کندھے پر بیٹھ یا گھٹنے ٹیک کر تیر چلانے آیا حالانکہ اصول یہ ہے کہ فتح اگر زمین پر نہ ہو تو آسمانوں سے اتری طاقت بھی اسے معتبر نہیں بنا سکتی۔

خالد خورشید کی کارکردگی پر ان کی تنقید اب یوں لگتی ہے جیسے کوئی شکست خوردہ پہلوان جیتنے والے پر بے معنی الزام لگاتا پھرے کیونکہ کھیل کا فیصلہ اکھاڑے میں نہیں ہوا فیصلہ کہیں اور ہو چکا تھا بس اکھاڑا تو ایک ڈرامائی پس منظر تھا قدرت کے فیصلے بھی عجیب ہوتے ہیں جسے رسوا کرنا ہو وہ اس کی زبان سے وہی بات کہلوا دیتی ہے جس سے اس کا پورا سیاسی وجود برہنہ ہو جائے امجد ایڈووکیٹ بھی آج اسی مقام پر کھڑے ہے۔۔

سچ ان کی جیب میں نہیں تھا مگر ان کی زبان سے نکل کر ان کے ہی قدموں میں رکھ دیا گیا کیونکہ اصول یہ ہے جسے طاقت گراتی ہے وہ گرتا نہیں جسے اپنی کمزوری گرا دے وہ کبھی اٹھ نہیں سکتا۔ تو قارئین آج حریف کی اپنی زبان سے سچ کا نکلنا سچے انسان کو مزید معتبر کرنا ہے۔ یہی وہ لمحہ ہے سچا انسان یہ سن کر سینہ تان کر اپنے رب کا شکر ادا کر رہا ہوگا یا اللہ تیرا شکر ہے کہ تم نے مجھے میرے دشمن کے منہ سے سچ اگلوا کر دنیا کے سامنے رسوا کیا۔ آج میرے لئے یہ صحیح معنوں جشن ہے بیشک اللہ جس سے چاہتا عزت دیتا ہے اور جس سے چاہے ذلیل کرتا ہے یہ کہانی بس اتنی سی ہے۔

جو اپنی بنیاد عوام پر نہیں رکھتا اسے کسی در کی طاقت وقتی طور پر تو اٹھا سکتی ہے مگر تاریخ ہمیشہ ایسے کرداروں کو ان کی اصل جگہ پر واپس پھینک دیتی۔

Check Also

Kahani Praetorian Guard Ki

By Toqeer Bhumla