Allah Ki Taqseem Par Ikhtilaf Ka Naam Hasad Hai
اللہ کی تقسیم پر اختلاف کا نام حسد ہے

اللہ کی تقسیم پر اختلاف حسد کہلاتا ہے یہ تمام برائیوں کی جڑ ہی جب ہم یہ سوچتے ہیں کہ یہ نعمت یا مقام اس کے پاس کیوں ہے؟ میرے پاس کیوں نہیں؟ تو ہم براہِ راست یہ ماننے سے انکار کر رہے ہوتے ہیں حسد کرنے والا دراصل دل میں یہ کہہ رہا ہوتا ہے، اے اللہ! جو فیصلہ تو نے اس کے حق میں کیا، وہ مجھے منظور نہیں!
یہی وجہ ہے کہ علما کہتے ہیں کہ حسد صرف دوسرے سے بغض نہیں، بلکہ یہ رب کی تقسیم پر اختلاف اور اس کی حکمت پر عدمِ اعتماد بھی ہے جب سینے کینے کا مسکن بن جائیں تو وحدت کہاں سے آئے گی پیار کہاں سے آئے گا بھائی چارہ کہاں آئے گا یہی وجہ ہے آج ہر بندہ دوسرے کے لئے سینے میں کینہ رکھ کر بیٹھا ہے کسی کی دولت، کسی کی کامیابی کسی کا آگے بڑھنے کا عمل یہاں تک کہ معاشرہ اس قدر حسد میں کینے میں آگے بڑھ چکا ہے کہ کسی کے چہرے پر سجی مسکراہٹ سے بھی لوگ جلتے ہیں ان کا بس نہیں چلتا کہ دنیا کی خوشیوں کو ختم کرکے روند دیں اور پھر شیطان کیطرح اکیلا ذلیل ہو کر بیٹھے۔
دل اللہ کی سب سے قیمتی امانت ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں محبت پھوٹتی ہے جہاں اخلاص جنم لیتا ہے، بلکہ کہتے اگر دل برائیوں سے پاک ہو تو اس میں اللہ بھی نظر آتا ہے جہاں سے خیر کا چشمہ بہتا ہے۔ مگر جب یہی دل کینہ، حسد اور بغض، نفرت کا مسکن بن جائے تو گویا خیر کا چشمہ خشک ہو جاتا ہے اور اس کی جگہ زہر کا دریا بہنے لگتا ہے۔ جہاں محبت کی جگہ نفرت لے لے، وہاں سکون نہیں رہتا جہاں خیر کی جگہ شر آ جائے، وہاں برکت نہیں اترتی۔
آج کا معاشرہ ایک عجیب بیماری میں مبتلا ہے۔ ہم دوسروں کی خوشی کو اپنی خوشی بنانے کے بجائے اس پر جلنے لگے ہیں۔ کسی کی ترقی ہمیں اپنی ناکامی کا آئینہ دکھاتی ہے، کسی کا مقام ہمارے دل میں حسد کا زخم لگا دیتا ہے، حتیٰ کہ کسی کے چہرے پر سجی ایک معمولی سی مسکراہٹ بھی کچھ دلوں کو چبھنے لگتی ہے۔ یہ چبھن رفتہ رفتہ بغض میں بدلتی ہے اور پھر یہی بغض انسان کو اندھیرے میں دھکیل دیتا ہے۔
میں نے ایک شخص کی محنت اور کامیابی پر ایک تحریر لکھی جو حقیقت پر مبنی ہے ہم اس کو جانتے ہیں بلکہ وہ ہمارے عزیز بھی ہیں یہ وہ کامیابیاں تھیں جو اس نے اپنی جدوجہد، پسینے اور عزم سے حاصل کیں۔ میں نے صرف حقیقت کو الفاظ کا لباس پہنایا، سچائی کو سراہا اور اسکی جد وجہد کو بیان کیا مگر ایک حریف کو یہ بات برداشت نہ ہوئی۔ تعریف اس کے دل میں ایسے لگی جیسے تیر سینے کو چیرتا ہے کچھ دن بعد حسد کی آگ میں تپتے ہوئے اس شخص نے کمنٹ میں اپنی چبھن کا اظہار کر ہی دیا۔
جی آپ نے جسکی تعریف کی جو کچھ بیان کیا دراصل ایسا نہیں ہے میں نے مودبانہ عرض کیا میرے بھائی پھر آپ مجھے بتا دیں حقیقت کیا ہے کیا میں نے غلط لکھا اب اس بندے سے جواب بن نہیں پایا تو اپنی تسکین کے لیے مجھے ان فالو کر دیا، گویا یہ اس کے زخم کا مرہم ہو یعنی آجکل لوگوں میں کسی کی تعریف سننے کی بھی جرآت نہیں اور نہ حوصلہ ہے یعنی قابیل اور ہابیل کا سلسلہ حسد تھکتا نظر نہیں آرہا ہے لگتا یہ وراثت حسد ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑے گا۔
یہی وہ لمحہ ہے جہاں انسان قابیل کی راہ پر چل نکلتا ہے۔ قابیل بھی بھائی کی خوبی اور قربت اللہ کو برداشت نہ کر سکا اور حسد نے اسے انسانیت کے پہلے قتل کا مجرم بنا دیا۔ آج بھی ایسے قاتل موجود ہیں وہ لوگ جو محبت، بھائی چارے اور اتحاد کو قتل کرتے ہیں۔ لوگ علم رکھتے ہیں، شعور رکھتے ہیں، مگر اپنے دل کے زہر پر قابو نہیں پاتے۔
کینہ اور حسد ایک آگ ہے، مگر یہ آگ دوسروں کو کم اور اپنے مالک کو زیادہ جلاتی ہے۔ یہ وہ زہر ہے جو انسان کو اندر سے کھوکھلا کر دیتا ہے، اس کی خوشی چرا لیتا ہے، اس کے سکون کو قید کر دیتا ہے۔ سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ اس زہر کا علاج تب تک ممکن نہیں جب تک انسان خود دل کی صفائی نہ کرے۔
قرآن میں صاف الفاظ میں آیا ہے کہ کسی قوم کے ساتھ دشمنی تمہیں انصاف سے نہ روکے دشمنی ہو یا اختلاف اس کے باوجود انصاف، محبت اور خیر خواہی باقی رہنی چاہیے۔ مگر جب دل حسد سے بھر جائے تو انصاف کا چراغ بجھ جاتا ہے اور روشنی کے بجائے اندھیرا چھا جاتا ہے۔ جیسے آج ہماری ملکی سیاست میں یہ سلسلہ بخوبی عیاں ہے اس حسد کی وجہ سے نہ انصاف ہے نہ عدل ہے اور نہ ہی بھائی چارگی بس بے جرم لوگوں کو سزائیں دی جارہی ہیں اغوا کیا جارہا ہے یعنی اس حسد میں انسانیت کی تمام حدیں پار کردی ہیں۔
آئیے، ہم اپنے دلوں کو صاف کریں۔ دوسروں کی خوشیوں میں خوش ہوں، ان کی کامیابیوں پر دعا دیں، نہ کہ ان پر حسد کا تیر چلائیں۔ یاد رکھیں! محبت کا ایک بول، دل کے زہر کے ہزار قطرے دھو سکتا ہے اور کینہ حسد کا ایک قطرہ، محبت کے سمندر کو بھی کڑوا کر دیتا ہے۔ اللہ ہمیں اس زہر سے محفوظ رکھے، ہمارے دلوں کو بغض، حسد اور کینہ سے پاک کرے اور ہمیں ہر ایک کے لیے حسنِ ظن رکھنے کی توفیق دے۔

