Aeeni Tarameem Ke Asraat
آئینی ترامیم کے اثرات

ملک میں تبدیلی کا موسم اب صرف اقتدار تک محدود نہیں رہا یہ چہروں، کرداروں اور آئین کے صفحات تک پھیل چکا ہے کبھی قانون کی شق بدلتی ہے، کبھی ضمیر کی اور کبھی اخبار میں کسی لکھاری کی تصویر یہ کالم اسی تبدیلی کے موسم کا ایک علامتی عکس ہے جہاں آئینہ اور آئین دونوں سوال پوچھتے ہیں کیا ہم اپنی اصل شناخت برقرار رکھ پائے ہیں؟
آج صبح حسبِ معمول نیند اور خبرناموں کے درمیان معلق کیفیت میں آنکھ کھلی۔ چائے کی خوشبو کے ساتھ اخبار کے صفحات پلٹنا میری روز کی عادت ہے۔ مگر آج کا دن کچھ اور ہی تھا ایڈیٹوریل صفحے پر نظر ٹھہری تو دل جیسے رک سا گیا نام میرا تھا تحریر بھی میری مگر تصویر کسی اجنبی کی! پہلے تو میں سمجھا شاید میری آنکھیں دھوکہ دے رہی ہیں پھر دل نے کہا نہیں بھئی یہ دھوکہ آنکھوں کا نہیں زمانے کا ہے کہیں ایسا تو نہیں کہ راتوں رات میری شکل بھی کسی پارلیمانی ترمیم کی زد میں آ گئی ہو؟ کیونکہ آج کل اس ملک میں ہر چیز لمحوں میں بدل جاتی ہے کل جو سچ تھا وہ آج جھوٹ بن جاتا ہے اور کل جو جھوٹ تھا وہ آج قانون کہلاتا ہے۔
پریشانی کے عالم میں میں نے جلدی سے دوڑتے شیشے کے سامنے جا کھڑا ہوا نظریں اپنی آنکھوں میں ڈالیں اور لمحہ بھر کے لیے سوچا کیا یہ میں ہوں یا کوئی ترمیم شدہ ایڈیشن؟ مگر شکر ہے چہرہ ابھی تک وہی تھا جس پر وقت کے دھبے تو ہیں مگر شناخت ابھی باقی ہے دل نے سکھ کا سانس لیا جیسے کسی نے آئینِ پاکستان کی اصل دستاویز کہیں الماری کے کسی پرانے خانے سے ڈھونڈ لی ہو مگر یہ اطمینان زیادہ دیر قائم نہ رہ سکا میں نے سوچا اگر میری تصویر بدلی جا سکتی ہے تو میرے خیالات بھی کبھی بدل دیے جائیں گے کل کوئی میرے الفاظ چھاپ کر یہ کہے گا کہ یہ ترمیم شدہ مرموی کی تحریر ہے جیسے آئین کی ہر دفعہ کے بعد ترمیم نمبر فلاں لکھ کر ضمیر کی تبدیلی کو قانونی بنا دیا جاتا ہے.
میں نے اخبار بند کیا اور سوچنے لگا کہ شاید یہ محض چھپائی کی غلطی نہیں بلکہ ایک علامت ہے اس ملک میں اب شناختیں بدلنے لگیں ہیں یہاں چہروں سے زیادہ چالیں پہچانی جاتی ہیں اور تحریر سے زیادہ تصویریں بولتی ہیں کل تک جو عوام کا چہرہ تھا آج وہ اقتدار کے رنگ میں رنگ گیا ہے۔
شیشے کے سامنے کھڑا میں اب خود سے سوال کر رہا تھا کئی سوال میں اپنے آپ سے کر رہاتھا بلکہ دل ہی دل میں الجھ رہا تھا کیا ہم سب بھی اسی آئین کی طرح نہیں بن گئے؟ ہر چند سال بعد کسی کے قلم سے ترمیم شدہ کہیں ہماری سوچ کی شق 19 بدل جاتی ہے کہیں ہمارے ایمان کی شق 62 اور کہیں ضمیر کی شق 63۔
سوچا شاید وہ اجنبی چہرہ دراصل وہی ہے جو میں بنتا جا رہا ہوں ایک ایسا چہرہ جو اصل نہیں نظام کے سانچے میں ڈھلا ہوا ہے جس میں سچ بولنے کی ہمت آئینی طور پر معطل ہے اور جھوٹ بولنے کا استحقاق مکمل طور پر منظور شدہ میں نے آخری بار شیشے میں خود کو دیکھا اب میں مطمئن نہیں بلکہ متفکر تھا کہ شکر ہے میری شکل تو ابھی باقی ہے مگر ڈر یہ ہے کہ کہیں آنے والے اخبارات میں میری تحریر بھی کسی اور کے لہجے میں نہ چھپ جائے کیونکہ اس ملک میں سب کچھ بدلتا ہے سب کچھ ممکن ہے آئین، قانون، چہرے اور کبھی کبھی سچ بھی صرف جھوٹ اپنی جگہ پر قائم رہتا ہے جیسے کسی مقدس شق میں لکھا ہو یہ مملکتِ پاکستان میں ناقابلِ ترمیم ہے۔

