Aeen Ko Tarmeemo Ke Zariye Marora Ja Raha Hai
آئین کو ترمیموں کے ذریعے مروڑا جا رہا ہے

پاکستان کی تاریخ اگر ایک کتاب ہے تو اس کی سب سے زیادہ بوسیدہ اور بار بار پلٹی جانے والی فصل ترمیمات کی ہے۔ یہ وہ باب ہے جس میں آئین کی روح سے زیادہ اقتدار کے تقاضوں کو ترجیح دی گئی۔ یہاں اصول نہیں، مصلحتیں لکھی گئیں۔ یہاں قوم کے مفاد کے بجائے چند چہروں کے اقتدار کی بقا رقم کی گئی ہر آمریت نے آئین کے نام پر اپنے جرم کی توجیہہ لکھی اور ہر جمہوریت نے آئین کے نام پر اپنی کمزوری چھپائی یوں ترمیم، قانون نہیں، طاقت کی لغت بن گئی۔
پہلی بار آئین کو چھیڑا گیا تو کہا گیا ریاست بچانی ہے دوسری بار ہاتھ بڑھا تو کہا نظام درست کرنا ہے۔ تیسری بار قلم اٹھایا گیا تو دلیل دی گئی "قوم کی خدمت کے لیے اور اب جب چوتھی بار صفحہ پلٹا جا رہا ہے تو کہا جا رہا ہے جمہوریت مضبوط کرنے کے لیے۔ کاش کوئی پوچھے کہ اگر اتنی ترمیموں سے جمہوریت مضبوط ہوتی تو آج اس ملک کے ستون کب کے فولاد بن چکے ہوتے!
ترمیمیں اصل میں وہ جراحی کے اوزار ہیں جن سے اقتدار کے بدن پر کاسمیٹک سرجری کی جاتی ہے۔ چہرہ وہی رہتا ہے مگر مسکراہٹ ذرا نئی کر دی جاتی ہے قوم خوش ہو جاتی ہے کہ تبدیلی آ گئی حالانکہ پردے کے پیچھے وہی پُرانا مسخرہ اسی آئین کے ماتھے پر نئی رنگت پھیر دیتا ہے۔ آئین کے ساتھ یہ کھیل آج کا نہیں یہ تو اس روز سے شروع ہوا جب نظریۂ ضرورت نے قانون کو غلام اور ضمیر کو مجرم بنا دیا تب سے ہر طاقتور نے آئین کے سینے پر اپنی مہر ثبت کی اور کہا یہ ملک اب صحیح سمت میں جا رہا ہے کبھی سوچا ہے یہ صحیح سمت ہمیشہ اقتدار کے دروازے کی طرف کیوں نکلتی ہے؟
آج بھی کہانی وہی ہے بس کردار بدل گئے ہیں اب کوئی وردی میں نہیں آتا بلکہ سیاسی درویش کے لباس میں آتا ہے کوئی حکم نامہ اب وہاں سے نہیں آتا بلکہ پارلیمانی اتفاق رائے کے نام پر جاری ہوتا ہے فرق صرف یہ ہے کہ اب بندوق کے بجائے قانونی مسودے کے حروف سے قتل کیا جاتا ہے اور عوام؟
وہ ہر بار تماشائی بن کر تالیاں بجاتی ہے کبھی آمریت کی کبھی جمہوریت کی اور کبھی اصلاحات کی۔ کاش وہ جان پاتی کہ اصل کھیل اسٹیج پر نہیں بلکہ پردے کے پیچھے کھیلا جاتا ہے جہاں ترمیموں کے نام پر قوم کے شعور کو بار بار مفلوج کیا جاتا ہے۔ آج ستائیسویں ترمیم پر بحث ہو رہی ہے کل شاید اٹھائیسویں پر ہوگی اور پھر کوئی نیا لفظ تراشا جائے گا اصلاحی پیکج جمہوری استحکام یا آئینی ہم آہنگی لیکن نتیجہ وہی رہے گا طاقتور مزید طاقتور اور آئین مزید کمزور کبھی کبھی دل کہتا ہے کہ شاید آئین کو اب کسی وکیل یا قانون دان کی نہیں بلکہ ایک درویش کی ضرورت ہے جو اس کے ماتھے سے مصلحت کی گرد صاف کرے اور کہے اے آئینِ وطن! تجھے ہم نے کتاب نہیں طاقت کے توازن کی تجارت بنا دیا ہے۔

