Aeen e Pakistan, Tarmeemat Ka Qissa
آئینِ پاکستان، ترمیمات کا قصہ

1973 کا سال پاکستان کی تاریخ میں ایک سنہری لمحہ جب قوم نے پہلی بار ایک اجتماعی سانس لیا۔ قومی اسمبلی کے ایوان میں عوام کی نمائندگی کا چراغ روشن ہوا اور آئینِ پاکستان کے نام سے ایک عہدنامہ تحریر ہوا جو محض ایک کتاب نہیں بلکہ خوابوں کا ضمیر تھا۔
ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں یہ آئین متفقہ طور پر منظور ہوا ایک ایسا دستاویز جو اسلامی جمہوریہ پاکستان کی بنیاد رکھتا تھا، جہاں پارلیمانی نظام، بنیادی حقوق صوبائی خودمختاری اور عدلیہ کی آزادی کے وعدے روشن ستاروں کی طرح جگمگاتے تھے یہ خواب تھا ایک مضبوط، متحد اور خوشحال پاکستان کا لیکن خواب اکثر دیر تک نہیں جیتے پچاس برس گزرے اور اس آئین کے جسم پر 26 نشتر لگ چکے ہیں کہیں اقتدار کے نشے میں کہیں نظام کے نام پر کہیں آمریت کے چابک سے تو کہیں جمہوریت کے ترانے میں ہر ترمیم نے آئین کی روح پر اپنا رنگ چڑھایا کوئی اسلام کے نام پر کوئی استحکام کے جواز میں۔
یہ ترمیمات کا سلسلہ محض قانونی تبدیلیاں نہیں بلکہ اقتدار کی ہوس کی عکاسی ہیں۔ تاریخ کی روشنی میں دیکھیں تو ہر دور کے حکمرانوں نے آئین کو اپنی قمیص کے مطابق تراشا کسی نے بازو کاٹے کسی نے دامن چھوٹا کیا کسی نے ایمان کے رنگ چڑھائے اور کسی نے مفاد کی سلائی سے نئی جیبیں لگا دیں اصل میں آئین کتاب میں وہی ہے لیکن اس کے الفاظ اب کسی اور زبان میں بولتے ہیں۔
جمہور کا نام لیتے لیتے جمہور ہی غائب ہوگیا چوکیدار اور چور مل بیٹھ کر اپنی آنے والی نسلوں کی سوداگری کرتے نظر آتے ہیں یہ آئینی ترامیم نہیں اپنی کرسیوں کی مدت کی تقویت بڑھانے کے ڈرامے ہیں۔ محب وطنی کا لبادہ اوڑھ کر ظلم کی انتہا کر رہے ہیں۔ آئیے تاریخ کی گہرائیوں میں اتر کر ان ترمیمات کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ جمہور کے لیے کوئی آسانی کوئی حق نظر آتا ہے یا نہیں۔
پہلی ترمیم (1974): مذہب کا پہلا دروازہ بند
1973 کے آئین کی سیاہی خشک بھی نہ ہوئی تھی کہ 1974 میں پہلی ترمیم آ گئی ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا۔ یہ ترمیم آئین کے آرٹیکل 260 میں تبدیلی تھی جو مذہبی شناخت کی بنیاد پر ایک برادری کو قومی دھارے سے الگ کرتی تھی۔ بظاہر اسلام کی حفاظت کا دعویٰ مگر حقیقت میں سیاسی دباؤ کا نتیجہ ربوہ واقعات اور مذہبی جماعتوں کی تحریک۔ کیا یہ جمہور کے حقوق کی حفاظت تھی؟ نہیں یہ اقتدار کی بقا کے لیے ایک طبقے کی قربانی تھی۔ خوابوں کا ضمیر اب مذہبی تقسیم کی پہلی شگاف سے داغدار ہوا۔
آٹھویں ترمیم (1985) صدر کو بادشاہ بنانا
جنرل ضیاء الحق کی آمریت کا دور۔ 1985 میں آٹھویں ترمیم نے آئین کے آرٹیکل 58(2)(b) کو متعارف کرایا جس نے صدر کو اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار دے دیا یہ ترمیم ضیاء کی غیر جمہوری حکومت کو قانونی جواز دینے کے لیے تھی نواز شریف کی پہلی حکومت (1990) اور بے نظیر بھٹو کی دونوں حکومتیں (1988-90 اور 1993-96) اسی اختیار کی بھینٹ چڑھیں۔ صدر غلام اسحاق خان اور فاروق لغاری نے اسے استعمال کرکے منتخب حکومتیں گرائیں۔ جمہور کے ووٹ کی توہین تھی یہ۔ استحکام کا نام دے کر آمریت کو مستقل کیا گیا۔ آئین کی روح پارلیمانی بالادستی اب صدارتی چابک تلے دم توڑ رہی تھی۔
تیرہویں ترمیم (1997) طاقت کا توازن بحال؟
نواز شریف کی دوسری حکومت میں 1997 کی تیرہویں ترمیم نے آٹھویں کو ختم کر دیا صدر کے اختیارات کو کاٹا۔ بظاہر جمہوریت کی بحالی مگر یہ بھی اقتدار کی بازیگری تھی۔ نواز شریف نے اپنی حکومت مضبوط کی لیکن چند سال بعد جنرل پرویز مشرف کے مارشل لاء (1999) نے سب کچھ الٹ دیا۔ مشرف نے صدارتی نظام متعارف کرایا اور آئین کو معطل کر دیا جمہور کے لیے کوئی آسانی؟ صرف حکمرانوں کی سہولت ایک نے کاٹا دوسرے نے جوڑا، مگر قوم کی قسمت وہی پرانی بحالی کا شکار رہی۔
سترہویں ترمیم (2003) مشرف کی قانونی ڈھال
مشرف کی آمریت کو مستحکم کرنے کے لیے 2003 میں سترہویں ترمیم آئی آٹھویں ترمیم کے اختیارات بحال کیے گئے قومی سلامتی کونسل قائم ہوئی اور صدر کو دوبارہ اسمبلی تحلیل کا حق ملا۔ یہ ترمیم مشرف کی یونیفارم میں حکومت کو جواز دینے کے لیے تھی۔ جمہوریت کا لبادہ مگر اندر سے آمریت۔ وکلاء تحریک (2007-09) نے اسے چیلنج کیا اور آخر کار 2010 میں اٹھارہویں ترمیم نے اسے ختم کر دیا۔ مگر نقصان ہو چکا آئین اب ایک کھلونا بن چکا تھا۔
اٹھارہویں ترمیم (2010) صوبوں کو سانس لینے کا حق
پیپلز پارٹی کی حکومت میں 2010 کی اٹھارہویں ترمیم ایک روشن باب تھی آرٹیکل 58(2)(b) ختم صوبائی خودمختاری بڑھائی گئی این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کا حصہ بڑھا اور concurrent list ختم کرکے subjects صوبوں کو منتقل کیے گئے۔ یہ 1973 کے آئین کی روح کی بحالی تھی وفاقی توازن۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا جیسے صوبوں کو وسائل اور اختیارات ملے مگر کیا یہ جمہور کی فتح تھی؟ جزوی طور پر ہاں لیکن مرکزی حکومت کی کمزوری نے کرپشن اور نااہلی کو جنم دیا پھر بھی یہ ترمیم خوابوں کی ایک کرن تھی صوبوں کی آواز بلند ہوئی۔
پچیسویں ترمیم (2018) قبائل کو قومی شناخت کا سایہ
2018 میں عمران خان کی حکومت نے پچیسویں ترمیم کے ذریعے فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کر دیا۔ آرٹیکل 1 اور 246 میں تبدیلیاں، FCR ختم اور قبائلیوں کو بنیادی حقوق اور عدالتی تحفظ ملا۔ دہائیوں کی محرومی ختم ہوئی ترقی کے دروازے کھلے یہ جمہور کے لیے ایک حقیقی آسانی تھی لاکھوں لوگ قومی دھارے میں شامل ہوئے۔ مگر پیچھے سیاسی پوائنٹ سکورنگ تھی پی ٹی آئی کی انتخابی وعدہ۔ پھر بھی یہ ترمیم آئین کی روح سے قریب تھی۔
باقی ترمیمات مفادات کا جال
دوسری سے ساتویں (1974-77) سرحدیں تبدیل، احمدیوں پر مزید پابندیاں، اسلامی دفعات۔ بھٹو کی سیاسی بقا۔
نوویں سے بارہویں (1985-90): ضیاء کے اسلامی قوانین، شوریٰ کونسل۔
چودہویں سے سولہویں (1997-99) احتساب، کوٹہ سسٹم، مشرف کی تیاری۔
انیسویں سے چوبیسویں (2010-17): الیکشن قوانین، عدلیہ کی آزادی، مگر کرپشن کے دروازے کھلے۔
چھبیسویں (2022): NAB قوانین میں نرمی حکمرانوں کی حفاظت۔
ہر ترمیم کے پیچھے ایک چیخ دبی رہی جمہور کے حقوق؟ بنیادی حقوق تو آئین میں ہیں مگر عمل؟ عدلیہ کی آزادی کا دعویٰ مگر ججز کی تقرریاں سیاسی آزادی اظہار مگر بلاسفیمی قوانین کا خوف صوبائی حقوق مگر وفاقی کنٹرول۔
آج بھی ایوانوں میں نئی ترمیم کی باتیں ہوتی ہیں شاید الیکٹرانک ووٹنگ یا مزید صدارتی اختیارات۔ مگر کسی نے کبھی سوچا کہ ہمیں نئی نیت کی بھی ضرورت ہے؟ آئین خوابوں کا ضمیر ہے مگر اسے زندہ رکھنے کے لیے ایماندار حکمران چاہییں۔ چوکیدار اور چور کا اتحاد ختم ہو، تب خواب جیتے گا۔ ورنہ یہ ترمیمات کا سلسلہ جاری رہے گا اور قوم کی اجتماعی سچائی بدلتی رہے گی آئین کی کتاب وہی پڑی رہے گی مگر اس کی روح مرتی جائے گی۔
یہ تین مرد تین کہانیوں کا سلسلہ کبھی ختم ہوگا کیا جمہور کے لئے بھی کوئی آئینی ترمیم عمل میں آئے گی یا یوں جمہور کا گلہ گھونٹ کر اپنے اپنے مفادات کی ترامیم ہوتی رہیں گی اب جمہور کو بھی اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کرنی ہوگی نہیں تو یہ سیاستدان اور چوکیدار ملکر کسی دن ایک ایسی ترمیم لائیں گے جس میں جمہور برائے فروخت کا اعلان ہوگا۔
کیا ہم خوابوں کو بچا سکیں گے؟ یہ سوال تاریخ پوچھ رہی ہے۔

