1 November 1947, Na Mukammal Azadi
یکم نومبر 1947، نامکمل آزادی

یہ دن تھا یکم نومبر 1947ء کا وہی دن جسے ہمارے نصاب، جلسوں اور بینروں میں آزادی کا دن لکھا گیا مگر تاریخ کی دھول ہٹائیں تو یہ آزادی نہیں آزادی کے لباس میں نیا تسلط تھا۔ کہا گیا ہم نے ڈوگرہ راج سے نجات پائی، مگر یہ کسی منزل کا آغاز نہیں، ایک نئے سفر کی غلامانہ تمہید تھی بریگیڈیئر گھنسارا سنگھ کو گرفتار کیا گیا مگر اس کی جگہ وہ قوتیں قابض ہوئیں جنہیں آج ہم ادارے اور بیوروکریسی کے نام سے جانتے ہیں نام بدل گئے زنجیریں وہی رہیں۔
Rousseau نے کہا تھا انسان آزاد پیدا ہوتا ہے مگر ہر جگہ زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے اگر یہ جملہ کہیں پوری طرح اترتا ہے تو وہ ہے گلگت بلتستان فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے یہ زنجیریں ڈوگروں اور انگریزوں کے ہاتھ میں تھیں اب یہ فائلوں، نوٹیفکیشنوں اور آئینی وعدوں کے شکنجے میں ہیں۔ یہ کیسی آزادی ہے جس میں وسائل پر غیر مقامیوں کا قبضہ ہے۔ جس میں پہاڑ تمہارے ہیں مگر فیصلے کسی اور کے دریا تمہارے ہیں مگر بجلی تمہیں نہیں ملتی معدنیات تمہارے ہیں مگر منافع کوئی اور سمیٹتا ہے یہ آزادی نہیں یہ ریاستی استحصال کا نرم چہرہ ہے فرق صرف یہ ہے کہ اب گورے نہیں اپنے رنگ والے افسر حکم چلاتے ہیں۔
آزادی کا مطلب یہ نہیں کہ تم جھنڈے لہرا دو بلکہ یہ کہ تمہیں اپنی زبان بولنے اپنی رائے دینے اور اپنے حق مانگنے کی سزا نہ دی جائے۔ زبردستی انپڑھ جاہل کو سی ایم مسلط نہ کیا جائے مگر یہاں تو سچ بولنے پر شیڈول فور کی زنجیر ڈال دی جاتی ہے۔ یہاں تو آواز اٹھانے والا غدار کہلاتا ہے اور خاموش رہنے والا اداروں کی چاپلوسی کرنے والا محبِ وطن یہی کہاں کا دستور ہے۔ آج کے گلگت بلتستان میں آزادی کا مفہوم بھی کرنسی کی طرح جعلی ہے سونا کم، ملمع زیادہ نہ آئین میں جگہ نہ پارلیمنٹ میں کرسی، نہ وسائل پر حق صرف وعدے قراردادیں، کمیٹیاں اور خاموشیاں 1947 کے بعد سے آج تک یہ خطہ صدراتی آرڈرز پر چل رہا ہے یعنی آزادی کے بعد بھی نوآبادیاتی انتظام برقرار ہے۔
کیا یہی آزادی تھی جس کے لیے کپٹین حسن خان مرزا نے علمِ بغاوت بلند کیا تھا؟ تاریخ کا سب سے بڑا ظلم یہ ہوا کہ اصل ہیرو پسِ منظر میں چلے گئے اور انگریز افسر ولیم براؤن کو آزادی کا نجات دہندہ بنا دیا گیا یہ تاریخ نہیں، نوآبادیاتی فریب تھا کپٹین حسن خان مرزا، راجہ بابر خان، کرنل احسان علی یہ وہ نام ہیں جن کے لہو سے گلگت کی زمین سرخ ہوئی مگر جن کے خواب آج بھی آئینی محرومیوں کے نیچے دفن ہیں 16 دن تک مقامی حکومت رہی پھر وہی ہوا جو ہر انقلاب کے بعد ہوتا ہے اقتدار دوبارہ اس کے ہاتھ چلا گیا جس کے خلاف بندوق اٹھائی گئی تھی اور آج 78 سال بعد بھی وہ بندوق صرف یادگار میں بند ہے مگر قوم اب بھی قرض، کمیشن اور کنٹرول کے پنجے میں قید ہے۔
یہاں کے جوان ملک کی سرحدوں پر جان دیتے ہیں مگر ان کے گھروں پر متنازعہ کا بورڈ لگا ہے۔ یہ وہ آزادی ہے جو کفن کی طرح اوڑھا دی گئی ہے تاکہ غلامی کا چہرہ چھپ جائے آج اگر کوئی سوال کرے کہ کیا ہم آزاد ہیں؟ تو اس کے جواب میں سب کی نظریں جھک جاتی ہیں۔ کیونکہ سچ یہ ہے کہ ہم آج بھی قابضوں کے ذہنی نقشے پر بستے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ اب قبضہ تلوار سے نہیں بیانیے سے ہوتا ہے آج کا غلام بندوق سے نہیں، فائل سے باندھا جاتا ہے کپٹین حسن خان مرزا کے زمانے میں قوم ایک تھی شیعہ، سنی، بلتی، شینا، کشرو، کھوار سب ایک صف میں کھڑے تھے۔ اب وہی قوم مذہب، زبان اور مفاد کی لکیر سے کاٹی جا چکی ہے۔
یہ تقسیم کسی دشمن نے نہیں ہم نے خود اپنے ہاتھوں سے تخلیق کی ہے یاد رکھو یکم نومبر جشن کا دن نہیں محاسبے کا دن ہے۔ یہ دن یاد دلاتا ہے کہ 1947 کی بغاوت ادھوری تھی جب تک ہم اپنی زمین، اپنے وسائل، اپنی شناخت اور اپنی سیاست پر خود اختیار نہیں پاتے تب تک ہم آزاد نہیں ہم صرف قبضہ شدہ آزادی کے وارث ہیں اور جس دن قوم نے شعوری طور پر ایک ہو کراپنی آئینی و سیاسی حیثیت کا فیصلہ خود کر لیا۔ وہی دن حقیقی آزادی کا دن ہوگا۔ اس دن پہاڑ بھی گواہی دیں گےکہ یہاں کے لوگ آخر کار آزاد ہونے کے معنی سمجھ گئے۔
یکم نومبر صرف ایک تاریخی دن نہیں بلکہ آزادی، غیرت اور خودداری کی علامت ہے۔ یہ وہ دن ہے جب گلگت بلتستان کے بہادر سپوتوں نے غلامی کی زنجیریں توڑ کر اپنی قسمت اپنے ہاتھوں میں لی آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس آزادی کے مقصد کو یاد رکھیں اتحاد، ایمانداری اور تعمیرِ وطن۔
آئیے عہد کریں کہ ہم اپنے اس حسین خطے کو علم، انصاف اور ترقی کی روشنی سے منور کریں گے تاکہ آنے والی نسلیں فخر سے کہہ سکیں کہ ہم نے اپنے بزرگوں کی قربانیوں کا حق ادا کیا۔

