1.  Home/
  2. Blog/
  3. Shahzad Malik/
  4. Ye Asman Dhuan Dhuan

Ye Asman Dhuan Dhuan

یہ آسماں دھواں دھواں

آج کہیں پڑھا کہ نومبر کے مہینے میں اتنی دھند کبھی نہیں دیکھی تھی، تو اے ہم وطنو! یہ دھند نہیں ہے ہمارے لوگوں کی عیش کوشی لاپرواہی اور مسائل سے بے نیازی کا دھواں ہے جس نے ہمارے شہروں کی فضا اور ہوا کو اپنی زہریلی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ اپنے شہروں کو اس زہریلی آلودگی سے بچانے کی ہم کوشش تو کیا سوچ کو بھی قریب پھٹکنے نہیں دیتے۔ عیش کوشی ایسی کہ چند قدم پیدل چلنا محال سائیکل پر بیٹھنا محال۔ ایک ہی طرف جانے کے لئے گاڑی شئیر کرنا کسر شان سمجھتے ہیں، پبلک ٹرانسپورٹ کا سسٹم ہی تباہ کر بیٹھے ہیں۔ نیا بنانے کی کوششیں تنقید کی زد میں رہتی ہیں فصلوں کی باقیات کو آگ لگا دیتے ہیں دھڑا دھڑ درخت کاٹ کے فصلیں اجاڑ کر ہاؤسنگ سکیمیں بن رہی ہیں۔ ایسے میں فضا دھندلی نہ ہو تو اور کیا کرے زمین پر انسان کی پھیلائی آلودگی جب اوپر ٹھنڈی ہوا سے ملتی ہے تو سموگ بن جاتی ہے کسی دن اللہ کو ان شہروں کی مخلوق پر ترس آیا تو وہ باران رحمت سے اس کثافت کو دھوئے گا تاکہ اس کے بندے سانس لے سکیں۔

اللہ نے تو اس ملک کو ہر نعمت سے نواز رکھا ہے صحرا، پہاڑ، دریا، لہلہاتے سر سبز میدان، ہر طرح کے اناج طرح طرح کے پھل قسم قسم کی سبزیاں رنگا رنگ پھول چہچہاتے پرندے دودھ اور گوشت مہیا کرنے اور باربرداری کے لئے جانور ایسی کون سی چیز ہے جو اللہ نے اس ملک کے حصے میں نہیں رکھی۔ بس اگر کمی ہے تو مخلص اور قدردان حکمران نہیں ہیں جنہوں نے ملک کو جنت بنانے کی بجائے اپنی اپنی الگ جنت بنانے کو ترجیح دی اور ملکی وسائل کو ملک پر خرچ کرکے اپنے عوام کو آسودہ حال کرنے اور اپنے وطن کے حسن کو چار چاند لگانے کی بجائے اپنی نسلوں کی حالت سدھارنے کے لئے اپنے ذاتی خزانے بھرنے میں لگے رہتے ہیں۔

حکمران تو جیسے ہیں سو ہیں عوام انفرادی طور پر بھی ناشکرے اور اللہ کی نعمتوں کی قدر کرنے والے نہیں ہیں۔ خوبصورتی صرف عالیشان محلوں کا ہی نصیب نہیں ہوتی اگر شوق ہو تو کوئی شخص اپنی چند گز کی گھاس پھونس کی جھونپڑی کے ارد گرد سر سبز بیلیں چڑھاکر اس کے آگے تھوڑی سی جگہ پر پھولدار پودے لگا کر کچھ جگہ کو گھاس سے ڈھانپ کر اسے اتنا خوبصورت بنا سکتا ہے کہ دیکھنے والوں کی آنکھوں کو بھلا لگے اور وہ سراہے بخیر نہ رہ سکیں۔ گھروں کے آگے سڑکوں کے کنارے گھاس لگی ہو تو گرد و غبار سے نجات ملتی ہے ہر خالی جگہ پر حکومت کی طرف دیکھنے کی بجائے شہری خود پھول پودے اور گھاس لگوا لیں تو یہ کوئی اتنا مشکل نہیں ہے۔ ایک ہی علاقے کے ایک ہی سکول جانے والے بچوں کے والدین اپنے بچوں کے ساتھ دوسرے بچوں کو بھی باری باری پک اینڈ ڈراپ دے دیا کریں تو کتنی گاڑیاں سڑکوں پر نکلنے سے بچ جائیں۔

کسی زمانے میں اومنی بس کے نام سے شہروں میں سنگل اور ڈبل ڈیکر بسیں چلا کرتی تھیں جو صبح کے وقت لوگوں کو دفتروں سکولوں کالجوں بازاروں اور مطلوبہ جگہوں پر تھوڑے سے کرائے میں لے جاتی تھیں۔ بہت کم لوگ ذاتی گاڑیوں پر سفر کرتے تھے گھروں کے قریب پیدل اور کچھ ذیادہ فاصلے پر سائیکل چلا کر جانا آنا کرلیتے تھے۔ اس میں کوئی عار نہیں سمجھتے تھے یوں فضا پٹرول کے کالے دھوئیں سے بڑی حد تک محفوظ رہتی تھی پھر اور تو کسی طرح کی ترقی ہو نہ سکی بس کاروں کی بہتات ہوگئی پبلک ٹرانسپورٹ کہیں غائب ہوگئی اور دوبارہ اس سسٹم کو چلانے کی کوشش ہی نہیں کی گئی۔ اس کی جگہ پرائیویٹ ٹیکسیوں دھواں چھوڑتی کھٹارہ ویگنوں اور رکشوں نے لے لی۔ شہروں کے آس پاس کا دیہاتی ماحول کھیت کھلیان درخت جنگل پانی کے ذخیرے سب کچھ پراپرٹی ڈیلروں کی نذر ہوگیا اور اس سب کا نتیجہ نکلا زہرآلود دھواں آسمان پر چھائی ہوئی سموگ اور فضائی آلودگی میں ہم ساری دنیا پر بازی لے گئے ہیں یہی ہے ہماری ترقی۔

Check Also

Ameer Jamaat e Islami Se Mulaqaat (1)

By Amir Khakwani