Thursday, 02 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Shahzad Malik/
  4. Haveli

Haveli

حویلی

پاکستان بننے کے بعد بھارت اور پاکستان کے درمیان تاریخ کی عظیم ہجرت برپا ہوئی۔ لاکھوں لوگ اپنے علاقے چھوڑ کر نئے ملکوں میں جا بسے۔ ہمارا خاندان بھی ان میں سے ایک تھا جو مشرقی پنجاب سے ہجرت کرکے آیا اور گوجرانوالہ کے ایک گاؤں میں بس گیا۔ انتقال آبادی کے اس مرحلے میں بڑے بڑے رئیس اور مالدار لوگ خالی ہاتھ ہوگئے۔ بے سر و سامانی کا یہ دور بہت صبر آزما تھا نیا دیس، نئے لوگ، نیا ماحول، زندگی صفر سے شروع کرنی پڑی تو پاؤں جماتے جماتے دہائیاں بیت گئیں۔

اس دوران جوان ہونے والے بچوں کے گھر آباد کرنے پڑے تو اس حال میں کئے کہ اس وقت جو میسر تھا صبر کے ساتھ اسی پر اکتفا کیا بس بچوں کے گھر بسانے والی بات کی میرے بہت بچپن میں ہمارے خاندان میں جو شادیاں ہوئیں ان کی تھوڑی تھوڑی جھلکیاں سی مجھے یاد رہ گئیں۔ یہ شادیاں اگرچہ سادگی کی بہترین مثال تھیں مگر خاندانی رکھ رکھاؤ بھی نمایاں تھا۔ ہمارا خاندان زمیندار گھرانہ تھا اپنی بڑی بڑی زمینداریاں چھوڑ کر ترک سکونت کرکے خوابوں کی اس سرزمین پر آیا تھا۔

حکومت پاکستان کی طرف سے کئے گئے اعلان کے مطابق اپنی متروکہ زمینوں اور حویلیوں کے کلیم تو داخل کرا دئیے تھے لیکن ابھی عارضی طور پر رہائش اور گزارے کے لئے تھوڑے تھوڑے رقبے الاٹ ہوئے تھے۔ کلیموں کی جانچ پڑتال اور بھارت سے تصدیق کے بعد مستقل الاٹمنٹیں ہونی تھیں۔ ایسے حالات میں ایک ایک گھر میں کئی کئی کنبے آباد ہوگئے تھے۔ سب کی اولادیں تھیں جن میں کچھ بچے بچیاں جوان اور شادی کی عمر تک پہنچ چکے تھے۔

خاندان کے بڑوں کی زبانی سنتے تھے کہ ان میں رواج تھا کہ مرد اور جوان لڑکے اپنے گھروں کے دیوان خانوں میں دن کا وقت گزارا کرتے تھے اور شام کو گھروں میں جا کر رات بسر کرتے تھے اس دوران لڑکوں کی پڑھائی سمیت تمام سرگرمیاں دیوان خانوں میں ہی ہوا کرتی تھیں۔ پاکستان آ کر بھی ان کا معمول وہی رہا ہندوؤں کی ایک بڑی سی متروک حویلی ہمارے خاندان کو الاٹ ہوگئی۔ اس کے وسیع صحن کے درمیان پیپل کا گھنا سایہ دار درخت تھا جس کے نیچے چارپائیاں ڈال کر خاندان بھر کے لڑکے جوان اور بزرگ اپنا فارغ وقت گزارا کرتے تھے۔

مرد صبح گھروں سے کھا پی کر نکلتے اپنی زمینداری دیکھتے واپسی پر گھروں سے کھانا کھا کر حویلی آ جاتے اور شام تک یہیں وقت گزارتے۔ بزرگ اپنی سہولت سے وہاں آ جاتے حقے کا دور چلتا رہتا چونکہ ان کے پرانے کامے بھی ساتھ ہی آئے تھے وہ یہاں بھی ان کی خدمت میں حاضر رہتے تھے۔ سکول جانے والے لڑکے سکول سے آ کر گھروں میں کھانا کھا کر کچھ دیر آرام کرتے اور پھر اپنے بستے اٹھا کر حویلی آ جاتے یہاں بیٹھ کر سکول کا کام کرنا آسان لگتا کوئی نہ کوئی بڑا ان کی مدد کر دیتا۔

یہ بچے بڑوں کی صحبت میں بیٹھتے ان کی دانائی اور حکمت بھری باتیں سنتے، آپس میں کھیلتے کودتے، گپ شپ کرتے گویا حویلی ایک کلچر سنٹر کی حیثیت رکھتی تھی جہاں نئی نسل کی کردار سازی ہوتی انہیں اپنے بزرگوں کی طرح آپس میں محبت اور سلوک سے رہنے کا درس ملتا۔ وہ گھریلو سیاست کی برائیوں سے دور رہتے باہر آوارہ پھرنے سے محفوظ رہتے ملکی حالات پر تبصرے سن سن کر ان میں بھی سیاسی شعور آتا، گھروں میں جوان لڑکیوں اور بہو بیٹیوں کو مردوں سے پردے یا تکلفات سے نجات ملی رہتی اور ان کی زندگی بھی آسان رہتی ورنہ اتنے کنبوں کے اکٹھا رہنے سے ان کا بھی دم گھٹتا۔

جب کلیم کردہ جائیدادیں کافی حد تک الاٹ ہوگئیں تو اگرچہ اکٹھے رہنے والے کنبوں نے اپنے اپنے گھر الگ بنا لئے اور وہاں شفٹ ہوگئے مگر حویلی بدستور کلچر سنٹر کے درجے پر فائز رہی۔ خاندان میں شادیاں ہوتیں تو شادی ہال کا کام بھی وہیں پر ہوتا کوئی سرکاری افسر دورے پر آتا تو اس کا استقبال اور طعام کا بندوبست بھی ادھر ہی ہوتا الیکشن کے دنوں میں جب خاندان کے افراد الیکشن میں حصہ لیتے تو حویلی انتخابی دفتر میں تبدیل ہو جاتی اور یہاں خوب رونق اور گہما گہمی ہوتی۔

جب بچوں کی اعلیٰ تعلیم کا موقع آیا تو خاندان والوں کو شہر میں گھر بنانے کی ضرورت محسوس ہوئی آہستہ آہستہ حویلی کی ہر وقت کی رونقیں کم ہوتی گئیں لیکن اگر خاندان کے شہر میں رہنے والے بچوں میں سے کسی کی شادی ہوتی وہ گاؤں آ کر ہی کرتے اور حویلی شادی گھر کا کردار ادا کرتی۔ شہر میں رہنے والے کسی کی وفات ہو جاتی تو بھی تدفین کے لئے گاؤں ہی لایا جاتا مرنے والے کے لواحقین حویلی میں بیٹھ کر ہی گاؤں والوں سے تعزیت وصول کرتے۔

جب تک ہمارے دادا دادی اور پھوپھی پھوپھا حیات تھے تو ہم باقاعدگی سے گاؤں جاتے تھے ان کے انتقال کے بعد یہ معمول معطل ہوگیا اور ایک مدت تک ملک سے باہر رہنے کی وجہ سے تو آنا جانا ختم ہی ہوگیا شادی بیاہ پر بھی جانا نہیں رہا کبھی کبھی اپنے کزنز کے بچوں کی شادیوں کی تصویروں میں ایک شاندار سی عمارت کی جھلک نظر آتی ہے شاید یہ وہی حویلی ہے اور نوجوان نسل نے حویلی کو از سر نو تعمیر کیا ہے اللہ اس عمارت کو سدا آباد رکھے۔

Check Also

Ameer Jamaat e Islami Se Mulaqaat (1)

By Amir Khakwani