1.  Home/
  2. Blog/
  3. Shahzad Malik/
  4. Ehsas e Zimmedari

Ehsas e Zimmedari

احساس ذمہ داری

سکول جانے والے بچے ہر بچے کی زندگی میں وہ پہلا دن ضرور آتا ہے جب اس کے والدین میں سے کوئی ایک اس کی انگلی تھامے اس عمارت کی طرف لے جاتا ہے جس کے اندر کچھ عظیم لوگ اس بچے کے ذہن کے کورے کاغذ پر علم و فضل کے گہرے نقوش ثبت کرتے ہیں اور اسے جہالت کے اندھیرے سے نکال کر شعور کی روشن وادیوں کی طرف لے جاتے ہیں۔ یہ عظیم انسان اساتذہ ہوتے ہیں اور وہ معصوم بچہ ان کا شاگرد! مجھے بھی ایک دن صبح اٹھ کر امی جان نے سکول یونیفارم پہنایا بال بنائے اور بستہ تختی تھما کر سکول کے لئے تیار کرایا۔

وہ شاہ پور صدر کے علاقے کا بڑی شاندار عمارت والا گورنمنٹ گرلز ہائی سکول تھا جہاں ابا جی میری انگلی پکڑ کر لے گئے بڑے سے کمرے میں میز کے پیچھے ایک بڑی بارعب خاتون بیٹھی تھیں۔ اباجی نے ان سے کہا کہ یہ میری بیٹی ہے سکول میں اس کا داخلہ کرانا ہے۔ خاتون نے بڑی شفقت سے مجھے دیکھا ابا جی سے کچھ سوال جواب کئے اور ایک فارم پر کرنے کو دیا جسے انہوں نے وہیں بیٹھے بیٹھے پر کرکے خاتون کے حوالے کردیا۔

کچھ دیر اس فارم کو پڑھنے کے بعد اثبات میں سر ہلاتے ہوئے میز پر رکھی گھنٹی بجائی تو اللہ دین کے جن کی طرح ایک پگڑی پوش شخص کمرے میں داخل ہو کر سلام بجا لایا، خاتون نے انہیں کسی کو بلانے کا حکم صادر کیا وہ سلام بجا لاتے ہوئے الٹے پیروں کمرے سے نکل گیا۔ کچھ دیر بعد ایک نوجوان خاتون کمرے میں داخل ہوئیں بڑی پیاری سی خاتون تھیں پہلی نظر میں ہی مجھے بھا گئیں۔ مجھے دیکھ کر ہلکا سا مسکرائیں اور میں جو پہلے والی خاتون کی رعب دار شخصیت سے سہمی بیٹھی تھی کچھ حوصلے میں آگئی۔ پہلی خاتون اس ہائی سکول کی ہیڈ مسٹریس تھیں اور دوسری والی پہلی کلاس کی کلاس ٹیچر تھیں۔

ہیڈ مسٹر یس نے مجھے کلاس ٹیچر کے حوالے کرتے ہوئے بتایا کہ یہ نیا داخلہ ہے اسے اپنے سیکشن میں بٹھائیے وہ پیاری ٹیچر مجھے لے کر کلاس میں آئیں۔ پہلے سے بیٹھی لڑکیوں سے میرا تعارف کرایا اور مجھے ایک لکڑی کی پیڑھی نما چوکی پر بٹھا دیا۔ جب آدھی چھٹی ہوئی تو ساری لڑکیاں میرے گرد اکٹھی ہو کر میرا حدود اربعہ پوچھنے لگیں پورا دن گذار کر چھٹی کے وقت تک ساری کلاس میری دوست بن چکی تھی اور میں بہت خوش تھی۔

چھٹی ہوئی تو ابا جی گیٹ پر میرے منتظر تھے میں ان کی انگلی پکڑے خوشی خوشی گھر کو چلی۔ یہ میرے سکول کا پہلا دن تھا چند دن ابا جی مجھے سکول چھوڑنے اور لینے جاتے رہے اس کے بعد ہمسائے میں رہنے والی بڑی کلاس کی لڑکی کے سپرد کر دیا کہ اس کے ساتھ جایا آیا کروں اس کے بعد میں جانوں اور وہ باجی!

صبح تیار ہوکر میں ان کے گھر چلی جاتی اور وہ مجھے اپنے ساتھ سکول لے جاتیں واپسی پر میں اپنے گھر وہ اپنے گھر میری امی جان کبھی میرے پیچھے سکول نہیں گئیں اور ابا جی بھی سکول داخل کراکے اپنا فرض ادا کر دیتے تھے۔ اب پڑھنا سکول جانا آنا میری ذمہ داری تھی جب کہ اس وقت میں بہت چھوٹی تھی کئی بار ہمسائی باجی نگہت کو سکول سے لیٹ گھر واپس جانا ہوتا تو میں اکیلی بھی گھر آجاتی تھی مجھے کبھی ڈر نہیں لگا تھا کئی بار سکول میں کسی تقریب کی ریہرسل دیکھنے میں دوبارہ بھی سکول چلی جاتی تھی کیونکہ سکول ذیادہ دور نہیں تھا پیدل کا راستہ تھا۔

وہ بھلا زمانہ تھا بچے اتنے غیر محفوظ نہیں تھے لوگ بچوں سے پیار کرتے تھے انہیں نقصان نہیں پہنچاتے تھے کبھی اگر کوئی بچہ راستہ بھٹک جاتا تو کوشش کرکے اس کے گھر پہنچا دینے کی روایت تھی۔

آج میں دیکھتی ہوں کہ والدین بچوں کے پیچھے دیوانے ہوئے جاتے ہیں چھوٹے بچوں کی تو بات ہی نہیں بڑے بچوں کا بوجھ بھی والدین خود ہی ڈھوتے ہیں۔ سکول ہوم ورک ٹیوشنز سکول لانا لے جانا کھیل تفریح ناشتہ لنچ ہر قسم کی ذمہ داری والدین اٹھا رہے ہیں۔ بچوں میں تھوڑا سا بھی احساس ذمہ داری پیدا ہی نہیں ہونے دیتے ان کے چھوٹے سے چھوٹے کام کے پیچھے ماں باپ بھاگ بھاگ کر ہلکان ہوئے جاتے ہیں۔ اس ہڑبڑاہٹ میں دوسروں کو ملنا ملانا اور سوشلائزیشن تو کہیں پیچھے ہی رہ گئی ہے۔

امتحان بچوں کے ہورہے ہوں اور جان ماں باپ کی مشکل میں ہوتی ہے۔ اس بات پر مجھے بہت حیرت ہوتی ہے ہم تو چھٹیوں میں ددھیال ننھیال بھی جاتے تھے کھیل کود بھی کرلیا کرتے تھے ٹیوشن بھی نہیں ہوتی تھی۔ اپنی ذمہ داری پر پڑھ بھی لیا کرتے تھے اس کی وجہ یہی سمجھ میں آتی ہے کہ والدین بچوں کے ساتھ اس طرح برتاؤ کرتے تھے کہ ان میں احساس ذمہ داری پیدا ہو اور وہ ہر قدم پر ماں باپ پر انحصار نہ کریں۔

یہ درست ہے کہ اس دور میں بچے محفوظ نہیں ہیں والدین ان کی حفاظت کا بندوبست ضرور کریں انہیں اچھے برے کا فرق ذہن نشین کرائیں جہاں ضرورت ہو ان کی رہنمائی کریں لیکن ہر کام کے لئے انہیں اپنا محتاج نہ بنائیں ان میں احساس ذمہ داری اور خود اعتمادی پیدا ہونے دیں۔

Check Also

Kahaniyan Zindagi Ki

By Mahmood Fiaz