Thursday, 02 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Shahzad Malik/
  4. Doctor Murshad

Doctor Murshad

ڈاکٹر مرشد

پہاڑیوں کے بیچوں بیچ بنے چھوٹے سے ہرگیسہ ائرپورٹ کے نیم پختہ رن وے پر صومالی ائر لائن کا فوکر طیارہ موغادیشو سے تین گھنٹے کی پرواز کے بعد اترا، جب طیارے کے مسافر اتر رہے تھے تو ایک طرف طیارے میں سوار ہونے والوں کی لائن بن رہی تھی تو دوسری طرف آنے والوں کے استقبال میں کھڑے لوگ قطار بنائے کھڑے تھے۔

ملک صاحب بھی اس قطار میں سب سے آگے کھڑے تھے اور بچوں کو دیکھ کر بے تابی سے ہاتھ ہلا رہے تھے۔ ائر پورٹ کی چھوٹی سی عمارت سے جب ہم ضروری لوازمات سے نمٹ کر باہر آئے تو ملک صاحب ایک لمبے تڑنگے سانولی رنگت اور بڑی بڑی آنکھوں والے شخص سے باتیں کر رہے تھے۔ جب ہم قریب پہنچے تو بچے تو باپ کی ٹانگوں سے لپٹ گئے، اس اجنبی شخص نے جھکی نظروں سے سلام بھابی شاب کہا تو میں سمجھ گئی کہ یہ بنگالی ہیں۔

ملک صاحب نے تعارف کرایا وہ ڈاکٹر مرشد تھے اور ان کا تعلق بنگلہ دیش سے تھا۔ وہاں ہرگیسہ میں رابطۂ عالم اسلامی کی طرف سے مہاجر کیمپ میں تعینات ہوکر آئے تھے یہ کیمپ صومالیہ اور ایتھوپیا کی آپس کی لڑائی کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے لوگوں کے لئے قائم ہوئے تھے اور ان کی دیکھ بھال اقوام متحدہ کا ادارہ برائے مہاجرین کرتا تھا ڈاکٹر مرشد ایسے ہی ایک کیمپ میں طبی سہولتوں کی فراہمی کے لئے کام کرتے تھے اکیلے تھے بیوی اور دو بچے بنگلہ دیش میں ہی تھے۔ ڈاکٹر صاحب کو یرقان ہوگیا تھا اور آفس والوں نے انہیں دو ماہ کی چھٹی آرام اور علاج کے لئے دی تو انہوں نے اپنے ملک جانا بہتر سمجھا اور وہ اس دن اپنے گھر جانے کے لئے ہی ائر پورٹ پر موجود تھے۔

پہلی نظر میں ہی بھلے اور شریف آدمی لگے تھے اور بعد میں بھی ایسے ہی ثابت ہوئے اتفاق سے ان کا گھر بھی ہمارے ہمسائے میں تھا۔ اس لئے جب تک وہاں قیام رہا خوب ملنا جلنا رہا دو ماہ کی چھٹیاں گذار کر اور تندرست ہوکر ڈاکٹر مرشد واپس آئے تو بیوی بچے ساتھ تھے بوٹے سے قد کھلتی گندمی رنگت تیکھے نقوش اور لمبے بالوں والی مسز یاسمین مرشد بہت پیاری ہنس مکھ اور ملنسار خاتون تھیں۔ بیٹی سونیا چھ سال کی اور بیٹا منہاس چار سال کا تھا، ہمارے بچوں سے اگرچہ چھوٹے تھے، مگر مل کر کھیل سکتے تھے۔

ڈاکٹر مرشد متحدہ پاکستان میں میڈیکل کے چوتھے سال میں تھے، جب وہاں سیاسی بے چینی شروع ہوئی جماعت اسلامی نے مکتی باہنی کا مقابلہ کرنے کے لئے الشمس اور البدر کی تنظیمیں بنائیں تو دوسرے بہت سے محب وطن پاکستانیوں کی طرح نوجوان میڈیکل سٹوڈنٹ مرشد بھی البدر میں شامل ہوگئے یہ مغربی پاکستان کے وہاں رہنے والے لوگوں کو مکتی باہنی کے ظلم و ستم سے بچاتے ان کو اپنے گھروں میں چھپاتے اور انہیں واپس بھیجنے میں حکام کی مدد کرتے تھے۔

ان تنظیموں نے وہاں پاکستان کو متحد رکھنے کے لئے سرتوڑ کوششیں کیں، لیکن اقتدار کی ہوس کے مارے ہوئے لوگوں نے ان کی کوششیں کامیاب نہ ہونے دیں، ہونی ہوکر رہی اور پاکستان دو لخت ہوگیا، پاکستان سے الگ ہوکر جب بنگلہ دیش کے نام سے ایک اور ملک وجود میں آگیا اور اس کی حکومت شیخ مجیب الرحمان کی سربراہی میں قائم ہوگئی تو ان نوجوانوں کی تلاش شروع ہوئی جو الشمس اور البدر کا حصہ رہے تھے، نوجوان مرشد تعلیم ادھوری چھوڑ کر جنگلوں میں روپوش ہوگئے اور اس وقت تک روپوش رہے جب تک حکومت کی طرف سے عام معافی کا اعلان نہ ہوگیا یہ وقت کیسے کٹا اس کو یاد کرکے ڈاکٹر صاحب آبدیدہ ہو جاتے تھے۔

بھوک افلاس دکھ بیماریاں کیا کچھ نہ جھیلنا پڑا انہیں اس در بدری میں بہت سے عزیزوں سے بچھڑنا پڑا اور سب سے بڑھ کر اپنی تعلیم کے قیمتی سال برباد کرنے پڑے جب حکومت نے ایسے تمام لوگوں کے لئے عام معافی کا اعلان کیا تو مرشد صاحب بھی منظر عام پر آئے کڑی آزمائش سے گذر کر دوبارہ اپنی میڈیکل کی تعلیم شروع کی دوران تعلیم ان کی مسلسل نگرانی کی جاتی رہی اور کئی بار پوچھ گچھ کے لئے بلایا جاتا رہا مگر نیک چلنی کے علاوہ کچھ نہ ملا تعلیم مکمل ہونے کے بعد ان کی شادی ایک بڑے با اثر زمیندار کی بیٹی سے ہوگئی میلوں تک پھیلے دھان کے کھیتوں کے مالک ان کے سسر حکومتی حلقوں میں خاصا رسوخ رکھتے تھے۔

ان کا داماد بننے کے بعد ہی ڈاکٹر مرشد کی خواہ مخواہ کی انکوائریوں سے جان چھوٹی سعودی عرب کی سربراہی میں چلنے والی تنظیم رابطۂ عالم اسلامی مسلمان ملکوں کو درپیش مسائل میں مدد دیتی تھی۔ جب اس نے صومالیہ میں قائم کیمپوں میں ڈاکٹر بھیجے تو ڈاکٹر مرشد کا نام بھی ان کی اچھی شہرت اور ان کے سسر کی وجہ سے اس فہرست میں شامل تھا۔

Check Also

Karachi Bacha Jail Mein Aik Din

By Muhammad Saqib