1.  Home/
  2. Blog/
  3. Shahzad Malik/
  4. Azam o Himmat Ke Koh e Giran

Azam o Himmat Ke Koh e Giran

عزم و ہمت کے کوہ گراں

ہمارے لڑکپن سے ایک ادھیڑ عمر کھچڑی بالوں والے بزرگ آیا کرتے تھے نام ان کا ہمیں بہت عجیب لگا کرتا تھا "ماہیا" کڑی مشقت اور تفکرات نے انہیں وقت سے پہلے ہی بڑھاپے کی سرحد پر لاکھڑا کیا تھا جب بھی گھر کی گندم کا آٹا پسوانا ہوتا تو آٹے کی چکی سے چھوٹا بھائی بابا ماہیا کو پیغام دے آتا وہ آ کے گندم کا تھیلا لے جاتے اور آٹا پسوا کر گھر چھوڑ جاتے۔ شروع شروع میں وہ تھیلا اپنے کندھے پر اٹھا کر لے جاتے بعد میں چکی والوں نے انہیں ہاتھ ریڑھی لے دی اور وہ ایک وقت میں تین چار گھروں کا آٹا پسوا لاتے۔

ہر پندرہ بیس دن کے بعد ان کا ہماری گلی کا چکر لگتا تھا۔ سردیوں کے آغاز پر ہماری کشمیری ملازمہ ماسی غلام فاطمہ گھر کی رضائیاں ادھیڑ کر دھو کر صاف ستھری کر دیتیں تو بابا ماہیا اپنی ریڑھی پر رکھ کر روئی مشین پر لے جاتے اور دھنکوا کر رضائیاں بھروا کر گھر چھوڑ جاتے، ماسی فاطمہ ان میں ڈورے ڈال کر سردیوں کے لئے تیار کر دیتیں۔ یہ ہر سال کا معمول تھا ابا جی کو ہر دفعہ تازہ دھنکی ہوئی نرم گرم رضائیاں پسند تھیں اور امی کو ہر سال یہ اہتمام کروانا پڑتا تھا۔

ہماری الہڑ زندگی کے ان دو کرداروں کی کہانیوں نے مجھے بہت متاثر کیا تھا۔

بابا ماہیا قیام پاکستان کے وقت بھارتی ضلع انبالہ کے ایک گاؤں سے اپنے اہل و عیال کے ساتھ نئے وطن جانے کے لئے نکلے۔ ان کے ساتھ ان کی بیوی، دو بیٹے، ایک شادی شدہ بیٹی، اس کا شوہر اور ان کے تین چھوٹے چھوٹے بچے تھے۔ یہ ایک چھوٹے سے قافلے کے ساتھ تھے ان کی منزل دسوھہ مہاجر کیمپ تھا جہاں پاکستان جانے والے لوگ جمع تھے۔ اس کیمپ کو کسی حد حکومتی حفاظت حاصل تھی۔ بابا ماہیا کا قافلہ ابھی دسوھہ سے دور ہی تھا کہ اس پر حملہ ہوگیا کئی اہل قافلہ کے ساتھ بابا ماہیا کی بیوی دونوں بیٹے اور داماد شہید ہو گئے۔ یہ خود، ان کی بیٹی اور اس کے بچے کسی طرح بچ گئے اور چھپتے چھپاتے گرتے پڑتے مصیبتیں جھیلتے دسوہہہ تک پہنچ گئے۔

جب جان کا خطرہ کم ہوا تو بچھڑ جانے والوں کے صدمے نے نڈھال کر دیا۔ دو ماہ دسوھہ کیمپ میں رہنے کے بعد اپنی باری پر قافلے کے ساتھ پاکستان پہنچے۔ ان کے کوئی دور پار کے رشتے دار گوجرانوالہ میں رہتے تھے وہ آ کر انہیں اپنے ساتھ لے گئے وقتی طور پر ان کے ساتھ ٹھہرے مگر جوان بیوہ بیٹی اور اس کے بچوں کا بوجھ زیادہ عرصہ تک رشتہ داروں پر ڈالنے کی بجائے خود محنت مزدوری شروع کر دی۔ انہی دنوں وہاں کسی نے آٹا چکی اور روئی دھننے والی مشین لگائی تو انہوں نے بابا ماہیا کو مستقل اپنے ہاں ملازم رکھ لیا۔

پارٹ ٹائم میں بابا لوگوں کا آٹا پسوانے اور رضائیاں بھروانے کا کام بھی کرنے لگے تو چکی مالکان نے از راہ ہمدردی ان کی سہولت کے لئے ہاتھ ریڑھی بنوا دی اب چکی سے ملنے والی تنخواہ اور پارٹ ٹائم محنت سے دو کمروں کے چھوٹے سے کرائے کے گھر میں رہ کر وہ اپنی بیٹی اور اس کے بچوں کا پیٹ پال رہے تھے۔ جن گھروں میں ان کا آنا جانا تھا وہ سب ان کی بہت عزت کرتے تھے وہ بھی سب کے ساتھ بڑی شفقت سے پیش آتے تھے۔ غیرت مند اتنے تھے کہ اپنی محنت کے معاوضے کے علاوہ کچھ قبول نہ کرتے تھے۔

گھر میں امی جان کی مددگار کے طور پر آنے والی ماسی غلام فاطمہ کا آبائی وطن کشمیر تھا کشمیر پر بھارتی قبضے کے خلاف لڑائی کے نتیجے میں اس وادی جنت نظیر کا ایک حصہ آزاد کرا لیا گیا۔ لڑائی کے دوران وہاں سے بہت سے کشمیری لوگ ہجرت کرکے پنجاب اور پاکستان کے مختلف علاقوں میں آباد ہوئے انہی لوگوں میں ماسی غلام فاطمہ کا کنبہ تھا یہ لوگ گوجرانوالہ میں کشمیریوں کے لئے قائم کئے گئے ایک عارضی کیمپ میں مقیم تھے۔

دو میاں بیوی اور دو بچوں پر مشتمل یہ چھوٹا سا کنبہ بےسر و سامان تھا، رہنے کو تو کیمپ میں ایک چھوٹا سا کمرہ میسر تھا مگر روزمرہ کی ضروریات کے لئے تو زر نقد کی ضرورت ہوتی ہے اس کے لئے میاں نے تلاش روزگار شروع کر دی اور تھوک کپڑے کی مارکیٹ میں مال ڈھونے کا کام کرنے لگا۔ بندہ تیز تھا اسی مارکیٹ سے کچھ تھان لے کر ایک تھڑے پر کسی کے ساتھ مل کر اپنا کام شروع کر لیا جو بہت تیزی سے ترقی کر گیا۔

مسلمانوں کے بارے میں مشہور ہے کہ چار پیسے ہاتھ میں آتے ہی سب پہلے بیوی بدلتے ہیں اس نے بھی تھوڑی سی مالی آسودگی آتے ہی کیمپ چھوڑ کر کسی دوسرے علاقے میں گھر کرائے پر لیا اور دوسری شادی کرکے وہاں شفٹ ہوگیا۔ بیوی کو چھوڑا تو بچوں سے بھی دستبردار ہوگیا۔ کچھ عرصہ انہیں خرچہ دیتا رہا پھر اس سے بھی ہاتھ کھینچ لیا بیچاری ماسی غلام فاطمہ دو بچوں کے ساتھ بے یارو مددگار رہ گئیں انہیں اپنی اور بچوں کی زندگی کی گاڑی چلانے کے لئے گھر سے نکلنا پڑا۔

کشمیری کیمپ کے ساتھ ہی سیٹلائٹ ٹاؤن کا علاقہ ہے جہاں شہر کے امرا کے علاوہ درمیانہ طبقے کے لوگ بھی آباد ہیں یہاں ماسی غلام فاطمہ کو کام ملنے کا امکان تھا۔ اتفاق سے وہ ہمارے پڑوس کے گھروں میں ہی کام کرنے لگیں امی جان کو ضرورت ہوئی تو انہوں نے بھی ماسی سے کام کا پوچھا اور انہوں نے حامی بھر لی۔ پہلے دو گھروں کے ساتھ تیسرا گھر ہمارا تھا جہاں وہ کام کرنے لگیں۔ پہلے پہل وہ اپنے دونوں بچوں کو ساتھ لے کر کام پر آتی تھیں پھر سب کے کہنے پر دونوں کو ایک میونسپل کارپوریشن کے سکول میں داخل کرا دیا جو ہمارے گھروں سے دور نہیں تھا۔

صبح وہ بچوں کے ساتھ ہی گھر سے نکلتیں بچے سکول اور وہ کام پر آ جاتیں بچوں کی چھٹی کے وقت تک وہ باقی دو گھروں سے فارغ ہو کر ہمارے گھر آ چکی ہوتیں، بچے ادھر ہی آ جاتے اور پھر یہ اپنے گھر چلے جاتے یہ معمول ایک لمبے عرصے تک جاری رہا۔ ماسی غلام فاطمہ اور ان کے بچے ہمارے گھر کے افراد کی حیثیت اختیار کر گئے تھے ہم سب گھر والے ان کی بہت عزت کرتے تھے وہ بھی ہم سے بہت محبت اور خلوص کا اظہار کرتی تھیں، دیکھتے دیکھتے ہم سب جوان ہو گئے۔

میرے بھائی برسر روزگار ہو گئے کچھ پڑھائی کے اختتام کو پہنچ رہے تھے۔ میری شادی ہوگئی، بچے ہوئے وہ میرے بچوں کا کام بھی اسی شوق سے کرتی تھیں ان کے اپنے بچے بھی بڑے ہو چکے تھے۔ عمر کا تقاضا تھا ماسی نے پہلے دو گھروں کا کام چھوڑ دیا لیکن ہمارا گھر نہیں چھوڑا تھا امی جان کے ساتھ ان کا بہت دل لگ گیا تھا اب وہ معمول کے کام کے علاوہ بھی امی جان کی مدد کر دیا کرتی تھیں وہ بہت کم چھٹی کرتی تھیں۔ کچھ عرصہ پہلے وہ اپنی بیٹی کی شادی کر چکی تھیں اور ان کا بیٹا ٹیکنیکل سکول میں تعلیم کے ساتھ کہیں پارٹ ٹائم جاب کر رہا تھا۔

وہ پہلا اتفاق تھا کہ ماسی غلام فاطمہ مسلسل چار روز سے نہیں آ رہی تھیں، دو تین دن مزید انتظار کے بعد ہم نے ان کے گھر جا کر معلوم کیا تو یہ جان کر بہت دکھ ہوا کہ ماسی غلام فاطمہ پر فالج کا حملہ ہوا ہے اور ان کے جسم کا کچھ حصہ متاثر ہوا ہے۔ حملہ زیادہ شدید نہیں تھا لیکن وہ اس قابل نہیں تھیں کہ کام کاج کر سکیں۔ ابا جی سمیت باقی لوگوں نے علاج کرانے کے لئے ان کی مدد کی اور ان کی حالت میں کافی بہتری آ گئی، دو اڑھائی ماہ بعد ایک دن ماسی غلام فاطمہ آ گئیں اور کام کرنے کا کہا۔

اتفاق سے بھائی آئے ہوئے تھے انہوں نے کہا ماسی آپ نے ساری زندگی بہت محنت کی ہے ہماری بہت خدمت کی ہے اب آپ کام نہ کریں کہیں دوبارہ بیمار نہ ہو جائیں۔ اب ہماری باری ہے کہ ہم آپ کی خدمت کریں آپ گھر بیٹھیں میں آپ کو پیسے بھیجتا رہوں گا۔ ماسی کی آنکھیں بھیگ گئیں بھائی کو بہت دعائیں دیں اور کہا بیٹا تمہاری امی کے بغیر میرا دل نہیں لگتا میں آتی رہوں گی اور وہ آتی رہیں۔ بھائی اپنے وعدے کے مطابق ہر ماہ ان کو پیسے بھجواتے رہے لیکن ماسی کو مفت خوری گوارہ نہیں تھی وہ آتیں اور منع کرنے کے باوجود کام میں امی کا ہاتھ بٹاتی رہیں۔

پھر ایک دن امی کو بتایا کہ میں اپنے بھائیوں کے پاس جہلم جا رہی ہوں بیٹے کو بھائی نے وہاں ملازمت دلوائی ہے بیٹی بھی ادھر ہی بھائی کے گھر بیاہی ہوئی ہے۔ میں اپنی باقی زندگی اپنے بچوں اور خاندان کے ساتھ گزارنا چاہتی ہوں اور وہ چلی گئیں۔ یوں ہمارا ان کا بچپن کا ساتھ اختتام کو پہنچا ان کے جانے کے بعد ان کی بہت کمی محسوس ہوتی تھی ہمت اور حوصلے کا پہاڑ تھیں وہ اتنے دکھ اٹھانے کے باوجود ان کے لبوں پر مسکراہٹ رہتی ان کا چہرہ ہمیشہ میری یادوں میں رہتا ہے۔

Check Also

Kahaniyan Zindagi Ki

By Mahmood Fiaz