Thursday, 26 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shaheen Kamal
  4. Soz e Nihan (2)

Soz e Nihan (2)

سوز نہاں (2)

اس نے بڑی تلخی سے کہا تھا امی کتابوں کا کیا کرنا ہے؟ کتابی اسباق جیتی جاگتی زندگیوں پر لاگو نہیں ہوتے، کتابیں محض خواب دکھاتی ہیں مگر ان تک رسائی کے راستے نہیں دیتی۔ وہ آدرشی تو ہوتی ہیں پر زمینی حقائق سے نابلد اور میں اپنے بچوں کو فیکٹس اینڈ فیگر کی حقیقت کے ساتھ پالنا چاہتا ہوں۔ اسی لیے ان کی رسائی میں صرف نصابی کتابیں ہیں باقی ادب ودب سب وقت کا زیاں۔

میں حق دق رہ گئی تھی۔ کیسی بات کر رہے ہو سرمد یہ کتابیں ہی تو ہیں جنہوں نے تمہیں اتنا تابندہ حال دیا ہے۔

کس دنیا میں ہیں آپ امی؟

آپ کارپوریٹ ورلڈ کو نہیں جانتی وہ بہت سفاک ہوتی ہے۔ وہاں تعلقات چلتے ہیں اور ان کو پہیہ لگاتا ہے روپیہ۔ میری بھولی امی یہ بات گرہ میں باندھ لیجیے کہ

باپ بڑا نہ بھیا، سب سے بڑا ہے روپیہ۔

بس روپیہ کہیں سے بھی اور کیسے بھی۔

دل ماننے کو تیار نہ تھا کہ یہ میرا سرمد ہے۔ اس کا تو پچھلا سارا وقت کتابوں کی چھاؤں میں گزرا تھا۔ یہ میرا کیسا نونہال تھا جو نونہال پڑھ کر بھی اس سے مستفید نہ ہوا۔ باپ کی دلائی گئی تعلیم اور ماں کی تربیت بھی اس کا کچھ نہ سنوار سکی؟ یہ کیسا گل تھا جو ماں کی گل زمیں سے رس کشید کرکے بھی پھلواری کا قدر شناس نہیں۔ صحافی اور ادیب باپ کا بیٹا اور ادب سے اس درجہ متنفر؟

سرمد اب بہت بہت بدل گیا تھا۔

مجھے اندازہ ہی نہیں تھا کہ آنے والا وقت میرے لیے کتنا اندوہناک ہے۔ میری آنکھوں کی روشنی اور میرے سر کا سائبان میرے دیکھتے ہی دیکھتے ختم ہوگیا۔ ایسا شدید دل کا دورہ کہ ہسپتال پہچنے تک کی بھی مہلت نہیں ملی اور یوں پلک جھپکتے میں میرا سکھ چین اجڑ گیا۔ ملک صاحب کیا گئے کہ زندگی کی معنویت ہی ختم ہوگئی۔

اب نیچلی منزل میں حماد میری تنہائی کے خیال سے رات میں میرے ساتھ ہوتا تھا۔ میرا دن ملک صاحب کی کتابوں کی دیکھ رکھ اور جھاڑ پونچھ میں اور شام پرانے معمول کے مطابق محلے کی بچیوں کو قرآن پاک کا سبق دینے اور بڑی لڑکیوں کو سلائی کٹائی سکھانے میں بسر ہو رہی تھی۔ زندگی اپنی روٹین پر تھی، وہی شب و روز مگر دل بجھ گیا تھا۔ سرمد ہمیشہ سے گھر کے آنگن میں سبق کی غرض سے آئی بچیوں کے خلاف تھا کہ اسے گھر میں باہر والوں کی آمد و رفت بالکل پسند نہیں تھی مگر باپ کے لحاظ میں معترض نہیں تھا پر اب کھل کر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرنے لگا تھا۔

جنوری کی سرد پڑتی شام سرمد نے ایسی خبر دی جو تھی تو خوشخبری مگر اس کے جملے کے اختتام تک میری رگوں میں دوڑتا لہو اترتی یخ بستہ شام کی طرح سرد پڑ گیا۔ سرمد نے شہر کے بہت پوش علاقے میں گھر خرید لیا تھا اور اگلے مہینے ہم سبھوں کو وہاں منتقل ہونا تھا۔ اس گھر کے فروخت کی بات وہ پہلے ہی پراپرٹی ڈیلر سے کر چکا تھا اور مجھے فروخت کی زحمت سے بچانے کے لیے اب پاور آف اٹارنی کے کاغذ پر میرے دستخط کا متقاضی۔ اس چھت تلے میرے صرف پچیس سال ہی نہیں تھے بلکہ اس کی ایک ایک اینٹ پر ملک صاحب کا لمس بھی تھا۔

یہ میری زندگی کا مشکل ترین لمحہ تھا۔ اس گھر سے جدائی صرف ملک صاحب سے نہیں بلکہ اپنے آپ سے بھی جدائی تھی مگر شاید اب میرے لیے میری اپنی ہی زندگی میں ترجیحات اور پسند و ناپسند کا اختیار نہیں تھا۔ بہت بھاری دل اور بھری آنکھوں سے میں نے پاور آف اٹارنی پر دستخط کر دیے اور آج پہلی بار دل کرلایا کہ کاش سرمد میری اکلوتی اولاد نہ ہوتا۔ شاید میرا کوئی دوسرا بچہ بھی ہوتا تو وہ اس گھر کو کم از کم میری حیات کے آخری پل تک کے لیے بکنے سے بچا لیتا۔ کیا کیا جائے کہ زندگی بہت سارے" کاش" سے عبارت ہوتی ہے۔

پہروں یہ دل سوچتا ہے

یوں ہوتا تو کیا ہوتا

یوں ہوتا تو کیا ہوتا

جس دن نئے گھر میں سامان کی منتقلی تھی اس دن صبح ہی سرمد نے ہم لوگوں کو نئے گھر بھجوا دیا تھا۔ لش لش کرتا آراستہ پیراستہ گھر تھا۔

میں یہاں آنے سے پہلے اپنا مختصر اسباب باندھ کر آئی تھی۔ میرا سامان ہی کیا تھا محض چند جوڑے کپڑے۔ میرا اصل اثاثہ تو ملک صاحب کی کتابیں تھیں جو کانچ کی تین الماریوں میں سجی دھری تھیں۔ ان کتابوں میں مجھے ملک صاحب کی سانسوں کی مہک اور ان کے ہاتھوں کا لمس محسوس ہوتا تھا۔ وہ کتابیں کب تھیں؟

وہ تو میری ہمراز سہلیاں تھیں جو میرے ہجر سے جھلستے دل پر یاد کا شبنمی پھاہا رکھتیں۔ گھر سے نکلتے ہوئے دیواروں کو سہلاتے اور نیم کے درخت کو گلے لگاتے ہوئے میں نے سرمد کو کتابوں کو حفاظت سے ٹرک پر چڑھانے کی تاکید کی تھی۔

شام ہوچکی تھی، ٹرک والے دو پہر ہی میں سارا سامان بھی اتار کر جا چکے تھے مگر کتابوں کے کارٹن اور شیشے کی تینوں الماریاں پورے گھر میں کہیں نہیں تھیں۔

سرمد سے پوچھنے پر اس نے کہا کہ

امی اس کباڑ کا کیا کرنا تھا؟

سو میں نے سب کباڑیے کو دے دیں۔

کیا!

کیا کہہ رہے ہو تم؟

مجھے لگا میرے کان بج رہے ہیں۔ بھلا سرمد ایسا کیسے کر سکتا ہے؟

وہ ان کتابوں کی اہمیت اور میری ان سے وابستگی سے آگاہ ہے وہ بھلا ایسا کیوں کرے گا؟

امی وہ کباڑ میرے گھر کے ڈیکور سے میچ نہیں کرتا سو میں انہیں نہیں لایا۔

مجھے محسوس ہوا کہ میرے سامنے میرا بیٹا نہیں بلکہ گلی گلی موبائل اور پرس چھیننے والا کوئی خبیث، بد باطن لٹیرا کھڑا ہے۔ وہ بےغیرت تو صرف مال چھینتے تھے اس سفاک نے تو میری یادوں پر شب خون مارا ہے اور میری حیاتی کا سارا سرمایہ لوٹ کر مجھے بے آسرا کر دیا۔

میرے پیٹ میں شدید ایٹھن ہوئی اور میں چکرا کر زمین پر گرتی چلی گئی۔ میری ڈوبتے ذہن میں صرف ایک بات تھی کہ منت ترلے اور آہ و زاریوں سے مانگی ہوئی اولاد اور ایسی نابکار!

ہائے میرا کیسا خسارہ ہوگیا۔

بےشک تمہارے مال اور تمہاری اولاد تو ایک آزمائش ہیں۔

Check Also

Bartania Mama Bane Na America Thekedar

By Najam Wali Khan