Roz e Eid Ya Waeed, Faisla Aap Ka
روز عید یا وعید، فیصلہ آپ کا
عید کا نام سنتے ہی خوشی و مسرت کا احساس ابھر کر سامنے آتا ہے۔ لیکن ہر خوشی کا کوئی مقصد ہے، ہر مسرت اپنے اندر مفہوم رکھتی ہے۔ پھر عید الفطر کی تقریب کیسے بے معنی ہوسکتی ہے؟ قابل غور بات ہے کہ کیا ہم مسلمان اس حسرت و شادمانی کی وجہ جانتے ہیں؟ اگر نہیں جانتے تو پیارے نبی کی زبان مبارک سے جان لیتے ہیں۔
"اس دن رب العالمین اپنے فرشتوں میں نماز عید کے اجتماعات میں موجود اپنے بندوں پر فخر کرتا ہے اور فرشتوں سے پوچھتا ہے، اُن مزدوروں کا کیا بدلہ ہونا چاہئے جنھوں نے اپنی مزدوری ٹھیک طرح پوری کردی ہے فرشتے جواب دیتے ہیں اے ہمارے معبود، ان کا بدلہ یہی ہونا چاہئے کہ ان کی مزدوری پوری پوری دی جائے" اللہ تعالٰی فرماتا ہے، اے میرے فرشتو! گواہ رہو کہ ان کے رمضان کے روزوں کی وجہ سے میں اُن سے خوش ہوگیا اور انھیں بخش دیا"۔ گویا عید الفطر اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعام و اکرام اور بندوں کے لئے ضیافت کا دن ہے۔
رمضان کے سات سو بیس گھنٹے جن مزدوروں نے اللہ کے لئے مزدوری کی اس کے احکام کی پابندی میں نہ صرف حرام کو ترک کیا بلکہ ایک مخصوص وقت کے لئے حلال چیزوں سے بھی اپنے نفس کو روکے رکھا۔ اپنے رب کی ناراضی سے ڈرے اور تقویٰ کا راستہ اختیار کیا۔ اپنے شب و روز اطاعت خداوندی میں گزارے اور نیکیوں اور اخلاق حسنہ کے سانچے میں ڈھل گئے۔ لیکن روز عید و عید ان کے لئے ہے جنھوں نے روزے تو رکھے، نمازیں میں بھی پڑھیں۔ لیکن خشیت الہی سے خالی اور رضائے الہی کے حصول کی خواہش کے بغیر۔
حلال رزق سے پرہیز کیا مگر حرام سے نہ بچے۔ جھوٹ، غیبت، چغلی جھگڑا فساد، بد دیانتی، بدگوئی بدستور روزے میں بھی جاری رہی۔ آخری عشرہ شروع ہوا تو دوکانوں، بازاروں کی رونق بڑھ گئی۔ عید کی خریداری میں فرض نمازیں بھی قضا ہوتی ہیں تو ہو جائیں، لباس فاخرہ میں کوئی عیب نہ رہ جائے۔ جبکہ اماں عائشہ صدیقہ نے تو بتایا کہ رمضان کے آخری عشرے میں پیارے نبی ﷺ کی عبادت و ریاضت اور سخاوت بہت زیادہ بڑھ جاتی تھی۔
آج امت مسلمہ کی اکثریت کا حال یہ ہے کہ ادھر ہلال عید نظر آیا اُدھر رمضان کی ساری پرہیزگاری غائب ہوئی۔ مساجد میں صرف بزرگ رہ گئے، نوجوان قید رمضان سے آزاد ہوئے اور سڑکوں، چوراہوں کی زینت بن گئے۔ حالانکہ عید کی رات تو ليلة الجائزہ ہے۔ یہ تو ذکر و اذکار اور طلب آخرت میں گزارنی چاہئیے۔ حضرت ابو امامہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا "جس نے عیدین کی دونوں راتوں میں خالص اجر و ثواب کی اُمید پر عبادت کی، اس کا دل (قیامت کے) اس ہولناک دن مردہ نہیں ہوگا جس دن لوگوں کے دل خوف و دہشت سے مردہ ہوں گے"۔ مگر، افسوس اب مسلمان عید سعید کا حقیقی مقصد ہی بھلا بیٹھے ہیں۔ اس خالص مذہبی تہوار پر غیر مسلموں کا سا اندازِ جشن و شادمانی غالب نظر آتا ہے۔ ذرا سوچئے کیا ہمارے بزرگان دین کا بھی یہی اندازِ فکرو عمل تھا۔
تاریخ اسلام گواہ ہے کہ خلیفہ دوم حضرت عمر فاروقؓ کو عید الفطر کے روز روتے ہوئے پایا گیا۔ لوگوں نے حیران ہو کر عرض کیا امیر المومنین! آج تو عید ہے اور آپ رو رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا "لوگو! یہ عید کا دن بھی ہے اور وعید کا بھی۔ آج جس کے نماز روزے قبول ہو گئے اس کے لئے عید کا دن ہے لیکن جن کی عبادات رد ہوگئیں اُس کے لئے تو آج وعید ہی کا دن ہے اور میں اسی خوف سے رو رہا ہوں"۔ حضرت شیخ عبد القادر جیلانی عید کے آداب و فضائل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں "عید ان لوگوں کی نہیں جو کھانے پینے میں مشغول ہو گئے، بلکہ عید ان کی ہے جنہوں نے اپنے اعمال میں اخلاص پیدا کر لیا"۔
میری عزیز بہنو! ذرا غور کیجئے عید تو کشمیری، فلسطینی اور شامی مسلمانوں کی بھی ہے۔ برما، روہنگیا، بوسنیا اور چیچنیا کے مسلم بہن بھائیوں کے لئے بھی عید کا دن آئے گا، جو بے بسی کے عالم میں مسلم دنیا کی بے حسی پر ماتم کناں ہیں۔ روز عید ہمیں رب کریم کے حضور ان مظلوموں کی دادرسی کے لئے درخواست کرنا ہے، دل کی گہرائیوں سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لئے دعا کرنا ہے اور سجدہ شکر بھی بجا لانا ہے کہ ہمیں پرامن ماحول میں رمضان المبارک کے بابرکت شب و روز گزار کر عید سعید سے لطف اندوز ہونے کی توفیق عطا فرمائی۔
حرف آخر کے طور پر صرف اتنا عرض کروں گی کہ بلاشبہ عید کے روز خوشی منانا، خوش لباس رہنا اور حسب استطاعت اچھے کھانے کھانا جائز و مستحسن ہے لیکن اس احساس کے ساتھ کہ رمضان المبارک میں اختیار کردہ تقوی و پرہیز گاری کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹنے پائے۔ پھر تو دنیا بھی ہماری اور آخرت بھی۔
بقول علامہ محمد اقبال:
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں