Sandal (2)
صندل (2)
اب میں اپنے اجڑے دل کے ساتھ، سونے در و دیوار کے بیچ پہروں بیٹھی سوچتی ہوں کہ ہم لوگ آنے والے بچے کے لیے لفظ "مہمان "کیوں استعمال کرتے ہیں؟
مہمان کو تو جلد یا بدیر رخصت ہی ہونا ہوتا ہے۔ اپنے آنے والے بچے کے لیے کیسا غلط لفظ چن لیا ہے ہم لوگوں نے!
میرے تو سارے مہمان ہی ادھوری مسافت کے راہی رہے۔
یہ مستقل کا مس کیریج میرا نصیبہ ٹھہرا۔ بائیس سالہ شادی شدہ زندگی میں نو مس کیریج، میری ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ میری بچہ دانی کمزور ہے اور یہ بڑھتے ہوئے بچے کا بوجھ نہیں سہار سکتی۔ کوئی ایسی بھی بدنصیب ماں ہوگی بھلا جو اپنے ہی پھول، اپنے ہی لعل کو نہ سہار سکتی ہو؟
ہاں ہے نا۔ میں ہوں وہ حرماں نصیب ماں۔ میں ہوں وہ تہی دست، جس کا نخل تمنا بارآور ہوتا ہی نہیں، مگر میں کیا کروں؟ مجھے بنانے والے نے ایسا ہی بنایا ہے۔ کون سا علاج تھا جو میں نے نہیں کروایا یا وہ کون سی احتیاط تھی جو میں نے دوران حمل اختیار نہیں کی؟
مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ حکمت، آئیو ویدک، ہومیوپیتھی، ایلوپیتھی۔ دم درود، منت ترلے کیا کیا نہیں کیا۔ امی سہون شریف سے داتا دربار تک منت مان آئیں۔ میں نے کہاں کہاں دعا نہیں مانگی، میری صرف ایک ہی دعا ہوتی، صرف ایک دعا۔
مولیٰ! میرے سونے آنگن میں بہار آ جائے۔ کوئی ننھا وجود میرے بازوں میں کھیلے، میں اسے گدگداؤں اور وہ قہقہے لگائے۔ میں اسے اپنے سینے میں جذب کر لوں تاکہ میری پیاسی ممتا کو قرار آ جائے۔
میں دیوانوں کی طرح علاج کے لیے کلنک کلنک ماری پھری پر درد کا درماں تو نہ ملا البتہ دواؤں کے سائیڈ ایفیکٹ کے باعث میں بے تحاشہ موٹی ضرور ہوگئی۔ اب ڈائٹنگ، ورزش یا واک کچھ بھی میرے اسکیل میں تبدیلی لانے سے قاصر ہے۔ زندگی عرصہ ہوا خزاں کی زد میں ہے کہ فارس نے محض تیرہ چودہ سال ہی ساتھ نبھایا پھر اس لاحاصل محنت سے تھک کر ساتھ چھوڑ دیا۔ اب میں بھی ہمت ہار چکی ہوں، زخم خوردہ اور نڈھال ہوں۔ میں نے اپنے نصیب سے شکست مان لی کہ میں نے اپنی بساط بھر کوشش کر چکی۔ اب جو حکم ربی، میرا سرِ تسلیم خم۔ میں نے طے کر لیا ہے کہ اب میں کسی بھی قسم کا علاج معالجہ نہیں کرواؤں گی۔ اب نہ جسم میں اذیت سہنے کی صلاحیت ہے اور نہ ہی دلِ نا شاد میں صدمے اٹھانے کی سکت۔ میرے دلِ
نا صبور میں نو ننھی منّی قبریں ہیں، بس اب اور نہیں۔ فارس کو میرا یہ فیصلہ بہت ناگوار ہے مگر جس جسمانی تکلیف اور دلی اذیت و رنج سے میں گزرتی ہوں، وہ بس میں جانتی ہوں یا میرا اللہ۔
اس بائیس سالہ ازدواجی سفر میں، میں پچھلے چھ سالوں سے بیراگی، ابھاگن سہاگن ہوں۔ فارس نے مجھے کوئی مالی تنگ نہیں دی، کھانا کپڑا برابر مل رہا ہے۔ بس اس نے میری طرف دیکھنا اور حال احوال لینا چھوڑ دیا ہے۔ محبت ترک کر دی ہے۔ اب ہمارے درمیان مکالمہ نہیں، نہ چاہ ہے اور نہ ہی اس کی کوئی راہ۔ ہمارے مابین ایک جامد چپ ہے۔ صبح مجھے ناشتے کی میز پر نمک دان کے نیچے، سبزی گوشت کے پیسے دبے ملتے ہیں۔ ہر ماہ کی اٹھائیس کو ماسی کی تنخواہ اور دیگر بلوں کی ادائیگی کے حساب سے ان کے پیسے بھی۔ سردی گرمی کے جوڑوں کے لیے علحیدہ سے رقم بھی ملتی ہے۔ پہلے فارس میرے لیے کپڑوں کی خود خریداری کرتے تھے۔ کیٹلاگ دیکھ کر درزی کو ڈیزائن سمجھاتے اور مجھے نیا جوڑا پہنا دیکھ کر خوش ہوتے تھے۔ اب میں نیا پہنو یا پرانا نظر اٹھا کر دیکھتے بھی نہیں، تعریف و توصیف کا تو خیر ذکر ہی کیا؟
ہاں یہ تلخ حقیقت کہ اب مجھ پر کچھ جچتا بھی نہیں کہ ہارمونز کی گڑبڑ نے ایسا موٹاپا عطا کیا ہے جو میری ہر کوشش اور تدبیر کو صفر کر دیتا ہے۔
میں روز ان کی پسند کا کھانا پکاتی ہوں اور رات گئے تک انتظار بھی کرتی ہوں گو کہ وہ اکثر ہی کھانا باہر سے کھا کر آتے ہیں۔ جو سچ کہوں تو مجھے فارس کی بے رونق زندگی پر ترس بھی آتا ہے۔ پہلے پہل فارس نے منہ پھیر کے سونا شروع کیا اور اب تو کمرہ ہی علحیدہ کر لیا ہے۔ میرا کبھی کبھی دل چاہتا ہے کہ اس سے کہوں کہ بھلے تم دوسری شادی کر لو مگر خدارا یوں اپنے آپ کو اور مجھے سزا نہ دو مگر حوصلہ نہیں ہوتا۔ مجھے لگتا ہے میں سوت کا دکھ سہ نہیں پاؤں گی۔ میں فارس کو کسی دوسری عورت کے ساتھ بانٹ ہی نہیں سکتی۔ میں نے بڑی کوشش کی کہ ہم لوگ کوئی بچہ گود لے لیں مگر فارس کی نہ ہاں میں نہ بدلی۔ اس ایک عمل سے جہاں کسی کی بے کس زندگی میں آسانی در آتی، وہیں ہم لوگ بھی ہنسی خوشی جی لیتے۔ دو زندگیوں کے سلگنے کے بجائے تین زندگیاں شاد ہو جاتیں۔
ہم لوگ اب جس اپارٹمنٹ میں کرائے پر آئے ہیں اس کے عین سامنے، بس ایک ہی سڑک کے پار جنت ہے۔ ہاں بالکل سامنے ہی تو "دارالسکون" کی عمارت ہے۔ یہاں زمانے کے ٹھکرائے ہوئے بچے رہتے ہیں، بہت ہی خاص اور معصوم بچے۔ اپنی چھٹی منزل پر واقع فلیٹ کی گیلری سے میں انہیں گھنٹوں دیکھتی رہتی ہوں۔ ایک دن میں ہمت کرکے وہاں چلی گئی۔ ضروری کاغذی کاروائی کے بعد مجھے رضا کار کے طور وہاں آنے کی اجازت مل گئی۔
ان بچوں کی طویل رفاقت نے مجھے ایسا سکون عطا کیا کہ اب مجھے اپنے حقیقی اور مجازی دونوں خداؤں سے کوئی شکایت نہیں۔ مجھے اپنے ادھورے پن کی وجہ اور اپنی زندگی کا مقصد سمجھ میں آ گیا ہے۔ میں خوش ہوں یا نہیں پر، پرسکون ضرور۔ ایک صبر سا آگیا ہے۔ اب میں دوسروں کے بچوں کو ترسی نگاہوں سے نہیں دیکھتی اور نہ ہی خدا سے گلے شکوے کرتی ہوں۔ ہم میں سے بہت لوگ لاحاصل کی لوبھ میں مبتلا ہیں۔ تشنا آرزوؤں پر بلکتے ہیں، سر پٹختے ہیں پر دینے والا اپنی مصلحت بہتر جانتا ہے۔ سو اب میں گھر میں جلے پیر کی بلی کی طرح بے کل نہیں پھرتی۔ میری طبیعت میں سکون اور ٹھہراؤ آ گیا۔
عجیب بات یہ ہوئی ہے کہ میری بے کلی رفع ہوتے ہی فارس کے مزاج میں کرختگی اور غصہ بڑھ گیا ہے۔
گزری رات فارس نے مجھے بتایا کہ وہ دوسری شادی کرنا چاہتے ہیں۔
میں حیران ہوں کہ میرے دل کو کچھ بھی تو نہیں ہوا؟
نہ میں روئی پیٹی، نہ ہی ان کے آگے گڑگڑائی۔ بس ایک ٹک انہیں دیکھتی رہی۔ نہ میرا دل ساکت ہوا اور نہ ہی میری آنکھیں نم۔
میں نے آہستگی سے کہا "ہاں فارس! تمہارا بھی خوشیوں پر پورا پورا حق ہے، جہاں سے ملے کشید کرو"۔
باخدا مجھے معلوم نہ تھا کہ محبت سے معمور دل فراخ و سخی بھی ہوتا ہے۔ میں کب بدلی، کیسے بدلی؟ مجھے علم نہیں مگر اب نہ رنج ہے اور نہ ہی کوئی گلہ۔ کسی سے بھی شکایت نہیں، یہ شاید ان معصوم بچوں کی محبت ہی کا اعجاز ہے کہ انہوں نے مجھے صندل کر دیا، بے لوث کر دیا۔
کمال یہ بھی محبت میں معجزہ ہوا ہے
کسی کا درد کسی اور کو عطا ہوا ہے