Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shaheen Kamal
  4. Mittar

Mittar

مِتَّر

شادی کے بعد سے ہمارا یہ معمول رہا تھا کہ مہینے میں ایک اتوار رات کھانا باہر کھایا جاتا۔ اس تسلسل میں بچوں کی آمد کے بعد کبھی ان کی نا سازی طبع تو کبھی کسی اور سبب متعدد بار رخنہ بھی پڑا، پھر بھی ہماری یہ کوشش ہوتی کہ حتیٰ الامکان یہ سلسلہ برقرار رہے۔ ہوٹل کا انتخاب جیب پر منحصر تھا سو زندگی کے اتار چڑھاؤ نے نارمل سے لے کر چھپر تک، سارے ہوٹل اور ڈھابے دکھا دیے پر ہماری یہ ماہانہ روش برقرار رہی۔

اب تو میرے آشیانے کے سارے پنچھی نئی مسافتوں کو اڑان بھر چکے اور پیچھے بچے ہم دونوں اور ہمارا اللہ بیلی۔ ربانی کی ریٹائرمنٹ کے کاغذات بھی بوسیدہ ہوئے پر ہمارا ساتھ توانا ہے۔ آج مہینے کی دوسری اتوار اور جیب میں پینشن کے کھنکھناتے سکّے بھی موجود مگر مہنگائی کی عفریت ایسی خون آشام کے سب ہڑپ جاتی ہے۔ اس بار ہمارا انتخاب شہر کے مرکز میں واقع معمولی سا ہوٹل تھا۔ میں نے ربانی کی فرمائش پر سنبھال اور سینت کر رکھی گئی، روپہلے باڈر والی نیلی ساڑھی باندھی۔ ربانی کی بجھتی آنکھوں کی جگمگاتی جوت نے میرے لڑکھڑاتے گمان کو یقین کی نوید دی کہ میں آج بھی اپنے پیارے من میت کی مدھو بالا ہی ہوں۔ شادی کے بعد سے ربانی مجھے مدھو ہی بلاتے ہیں بلکہ اب جب لوگ باگ مجھے میرے اصلی نام راحت سے پکارتے ہیں تو وہ نرا کلفت ہی لگتا ہے۔

میں بھی کہاں کہاں بھٹک جاتی ہوں۔ ارے ہاں یہ تو بتانا یاد ہی نہیں رہا کہ شوگر کے ساتھ ساتھ مجھے ایک نئی بیماری نے بھی گھیر لیا ہے۔ بڑا ادیق سا نام ہے، dementia لو بتاؤ بھلا یہ بھی کوئی بیماری ہوئی؟ اب ستر بہتر کی عمر میں تو آدمی ویسے ہی بہت کچھ بھول جاتا ہے۔ کوئی مجھ سے پوچھے تو میں تو اس بیماری کو مالک کا احسان مانتی ہوں۔ دیکھو نا اب مجھے دنوں کی گنتی یاد ہی نہیں رہتی، سو کتنے عرصے سے بچوں کا فون نہیں آیا یاد بھی نہیں۔ جب جب ربانی سے ذکر کرتی ہوں تو ربانی بڑے دلار سے کہتے ہیں۔ کیا بات کرتی ہیں آپ مدھو! ابھی پچھلے ہفتے ہی تو جمیل کا فون آیا تھا، اور دس دن قبل ہی تو سمرہ نے طویل خط کے ساتھ بچوں کی تازہ بتازہ تصاویر بھیجیں تھیں۔

شکر کہ اب میری زندگی سے انتظار یکسر نکل گیا ہے۔ میں تو نسیان کو رحمت ہی گردانتی ہوں۔ دیکھا میں پھر بھٹک گئی۔ ہاں تو میں روپہلے باڈر کی نیلی ساڑھی باندھ کر اپنے من میت کے ساتھ شہر کے مرکز میں واقع ہوٹل گئی۔ کراچی کی شامیں تو ویسے ہی فسوں کار اس پر ربانی کا ساتھ۔ میری جنت تو زمین ہی پر ہے۔ ربانی آج بھی ویسپا اسٹارٹ کرنے سے پہلے پوری طرح تسلی کرتے ہیں کہ میں آرام سے بیٹھی ہوں یا نہیں۔ میرے لیے ہوٹل کا دروازہ کھولتے ہیں اور کرسی کھینچ کر پہلے مجھے بیٹھاتے ہیں۔ شیولری chivalry تو ختم ہے میرے متوا پر۔ حسب عادت مینو کارڈ میری طرف بڑھا کر کہا کہ تم بتاؤ کیا کھاؤ گی؟

تمہی پڑھ دو ربانی! میں چشمہ گھر بھول آئی ہوں، میں نے پرس ٹٹولتے ہوئے کہا۔

ربانی ناک پر اپنا ٹیڑھے فریم والا دبیز چشمہ ٹکائے مینو پڑھنے لگے۔

کتنی دفعہ کہا ہے مِتّر کہ خدارا چشمہ بدل لو مگر تم ہر بار اگلی پینشن پر ٹال دیتے ہو۔ میں نے ناراضگی کا اظہار کیا۔

ارے کہاں ٹیڑھا ہے؟ ہلکہ سا ترچھا ہی تو ہوا ہے۔ اچھا چلو میں کل ہی کمال آپٹکس سے درست کروا لوں گا، اب خوش!

ربانی آج مٹن کڑاہی کا دل چاہ رہا ہے مگر خوب گلی ہوئی ہو (کہ اب منہ میں دانت بھی تو گنتی کے ہی رہ گئے ہیں)

کڑاہی!

ربانی کا متفکر سا استفسار مجھے سب سمجھا گیا۔

نہیں نہیں رہنے دو متّوا! کہاں چبایا جائے گا مجھ سے۔ پھر آج پچھلی داڑ میں کچھ درد بھی ہے۔

ہاں چلو ٹھیک ہے، اگلے ماہ ماشاءاللہ شادی کی انچاسویں سالگرہ بھی تو ہے ناں، یہ عیاشی اُس دن کریں گے۔

جانے شادی کی سالگرہ میں کتنے دن باقی ہیں یا وہ دن آ کر گزر بھی گیا؟ کون بتائے گا مجھے؟

ربانی کب گئے؟

دیکھا میں سارا حساب گڑبڑ کر دیتی ہوں۔ مجھے یاد ہی نہیں کہ ربانی کب سے میرے ساتھ نہیں مگر جب سے میرا مِتّرا گیا میرا من سنگھاسن ہی ویران ہوگیا ہے۔ سارا جگ ہی سونا سونا اور گھر میں ایک پر ہول سناٹا طاری رہتا ہے۔ چڑیائیں بھی تو اب میرے آنگن میں نہیں اترتیں۔ وہ کیوں راستہ بھٹک گئیں؟

کیا انہیں بھی dementia ہوگیا؟

میں کب سے شام کے ملگجے اندھیرے میں ربانی کے ٹیڑھے فریم والے چشمے کو ہاتھوں میں پکڑے یاد کرنے کی کوششوں میں ہلکان ہوں۔

بتاؤ نا ربانی تم کب گئے؟

Check Also

Kahani Aik Dadi Ki

By Khateeb Ahmad