Jungle Ka Qanoon
جنگل کا قانون
بڑھاپے کا ایک ضمنی اثر یہ بھی کہ دنیا کی ہاؤ ہو اتنی پر کشش نہیں رہتی۔ زندگی سے محبت بدستور بلکہ جو سچ پوچھیں تو جینے کی ہوس میں شدت سے اضافہ مگر پھر بھی دماغ سکون کا تمنائی۔ میں تو ویسے بھی اب سیلانی بن چکا ہوں سو مجھے قرار کہاں۔ میرے پیروں میں پچھلے دس سالوں سے بھنور ہی ہیں۔
ایک کورپوریٹ میٹنگ میں میری ملاقات روزلین سے ہوئی اور پھر تواتر سے ہونے والی ملاقاتیں سونامی میں ڈھلتے ہوئے شادی کے بندھن پر منتج ہوئی۔ انسانی دل بھی شاید وقت ہی طرح تغیر پسند۔ میری سیلز کی جاب مجھے نگری نگری گھمائے چلتی اور میری اسی غیر حاضری سے بے زار روزلین نے میرے عدم کو کیون(Kevin)کے وجود سے آباد کر لیا۔ یوں ہماری طوفانی محبت جدائی سے ہمکنار ہوئی۔ اس نو سالہ رفاقت کا ثمر اولیویا میرے پاس رہی۔
مغربی دنیا میں طلاق بہت مہنگی پڑتی ہے اور مجھے تو اولیویا مکمل کسٹڈی چاہیے تھی سو اپنی بیٹی کے حصول کے لیے مجھے روزلین کو منہ مانگی قیمت چکانی پڑی۔ اولیویا ہی میری کل کائنات سو اس کی پرداخت کی خاطر میں نے دنیا بھلا دی۔ کارپوریٹ کی سفاکی کی حد تک بے رحم دنیا میں رہتے ہوئے بھی ہمیشہ اولیویا ہی میری اولین ترجیح رہتی۔ اس کی وجہ سے مجھے کئی طرح کے سمجھوتے بھی کرنے پڑے مگر اولیویا کے لیے سب قبول۔
میں سدا سے جہاں گرد و آدم بے زار نہ تھا مگر لمحوں کے ہیر پھیر میں کچھ ایسا کرب بھی پنہاں ہوتا ہے جو آپ کو کچھ سے کچھ بنا دیتا ہے، آپ پھر پہلے جیسے نہیں رہتے بلکہ رہ ہی نہیں سکتے۔ اپنے بارے میں بس اتنا بتاتا چلوں کہ میری یادداشت بلا کی ہے اور چہرہ شناسی میرا شوق۔ گھاٹ گھاٹ کا پانی پیتے مسافر کی مانند میں اب تک پانچ برے اعظم چھان چکا ہوں بس انٹارکٹیکا اور آسٹریلیا ہی باقی ہیں۔ میں ستمبر کی اس بھیگتی رات میں ٹم ہارٹن کے پر سکون گوشے میں بیٹھا گھونٹ گھونٹ ڈبل ڈبل کافی اور کروسانٹ کے ساتھ میز پر البرٹا کا سیاحتی نقشہ پھیلائے کسی غیر آباد جگہ کی تلاش میں گم۔
یوریکا!
ارشمیدس ہی طرح میں نے بھی پا لیا۔ اسی البرٹا میں محض ڈھائی سو کلومیٹر کی دوری پر میرا گوہر مقصود موجود۔ بس پھر کیا تھا، اپنی فور ویلر کی ٹنکی فل کی، کچھ خشک خورد و نوش کا سامان اکٹھا کیا اور چل سو چل۔ جب موسم بھی من مرضی کا ہو تو سفر دو آتشہ ہو جاتا ہے۔ سو مزے کی بات کہ سفر میں موسم اور ہمسفر دونوں ہی دل پسند۔ مجھے ڈرائیونگ کرتے ہوئے برستی بارش بہت بھاتی ہے اور رہا ہمسفر، تو وہی میرا پرانا رفیق میرا سیامی بلا " چینو "۔ پیسنجر سیٹ اب عرصے دراز سے چینو ہی کی ملکیت ہے۔
میں سہ پہر ڈھلے وہاں پہنچا۔ بارش رک چکی تھی مگر برسات کی فسوں کاری چپے چپے سے عیاں۔ یہ گھنے جنگل کے بیچوں بیچ بنا ایک بہت بڑا اور پرانا کاٹیج تھا۔ اس کاٹیج کی خاصیت یہ کہ اس میں تین رہائشی کمرے، ایک ہال اور ایک باورچی خانہ البتہ بیت-الخلا اور غسل خانہ کاٹیج سے کچھ دوری پر۔ قسمت نے یاوری کی اور واحد خالی کمرہ میری ملکیت ہوا۔ مجھے حیرت ہوئی کہ وہاں میرے جیسے اور بھی آدم بیزار موجود تھے اور ساتھ ہی شدید کوفت کا احساس بھی کہ بن میں بسرام کے باوجود بنی آدم سے مفر نہیں۔
رات بون فائر میں دونوں پڑوسیوں سے ملاقات ہوئی۔ نوجوان جوڑے، ایڈم اور ایو کو اپنا ہنی مون منانے کے لیے یہ جنت ارضی شاید ارم کے متبادل لگی سو انہوں نے یہیں سے اپنی ازدواجی زندگی کی شروعات کی۔ یہ دونوں بہت ہی خوش شکل و خوش خلق تھے۔ یقیناً یہ ان مدماتے دنوں کا اعجاز جب ساون کے اندھے کو ہرا ہی ہرا سوجھتا ہے۔ بلاشبہ ابھی پچھل پیری زندگی شیتل اور کومل تھی۔
یہ بیری کب کس پل کیسے پچھاڑ دے کیا خبر؟
دعا تو یہی کہ یہ نرم گرم ساتھ ایسا ہی چلا چلے پر۔۔
ان رومیو جولیٹ نے کولمبیا یونیورسٹی سے پچھلے سال ہی ایجوکیشن میں گریجویشن کی تھی اور اب گزشتہ چھ دنوں سے اسی بہشت بریں میں زندگی کی خوشیوں سے رس کشید کر رہے تھے۔ آتی اتوار ان کی اُسی ہنگام پرور دنیا میں واپسی تھی کہ ان کے وقت اور جیب کی استطاعت فقط اتنی ہی۔
کمرہ نمبر دو میں آرتھر رہائش پذیر تھا۔ ڈیلس سے آیا یہ لحیم شحیم سیماب صفت آرتھر جیولوجسٹ تو تھا ہی پر سیاح بھی۔ مزے کی بات کہ یہ ساتوں براعظموں کو چھان آیا تھا۔ آرتھر نے اپنے سیاحتی قصے سناتے ہوئے وہ سماں باندھا کہ مجھ جیسے آدم بیزار کو بھی جکڑ لیا۔ محفل کا اختتام ایو کی سریلی آواز میں سیلین ڈیون کا شہرہ آفاق نغمہ
My heart will go on
اور ایڈم کے ماؤتھ آرگن پر وٹنی ہیوسٹن کے نغمے
Will always love you
پرا ہوا۔ بلاشبہ یہ ایک خوشگوار شام تھی جس میں کافی کی ترسیل ایک خاموش کردار نے جاری رکھی۔ یہ اس کاٹیج کا راکھا یعنی بش تھا۔ درمیانے قد اور فربہی کی طرف مائل جثے والا بش جو الفاظ کی بخیلی پر سختی سے قائل بھی۔ اس کی مونچھیں بالائی لب پر سایہ فگن اور داڑھی الجھی و گنجلک شاید برسوں سے سنورنے کو ترسی ہوئی۔
اس کاٹیج کی سب سے اچھی بات کہ یہاں وائی فائی کنکشن نہیں تھا، آپ شہروں کے تصنع اور خرافات سے دور فطرت کی گود میں سکون سے وقت کی چاپ کو محسوس کر سکتے تھے۔ البتہ ایمرجینسی کے لیے ایک سیٹلائیٹ فون ہال میں ضرور موجود تھا۔
سونے کے لیے لیٹتے ہوئے میں نے چینو سے پوچھا تم یہاں خوش ہو؟ چینو نے جواب تو نہیں دیا البتہ حسب معمول اٹھ کر تکیہ کے کونے پر سر رکھ کر میرے قریب لیٹ گیا۔ چینو کا ساتھ میری زندگی کا خوشگوار ترین اتفاق تھا۔ چینو دراصل سرکس کا بلّا تھا اور بلا کا گنی بھی۔ چینو ایک حادثے کا شکار ہو کر لنگراہٹ شکار کیا ہوا کہ مالک کے لیے ٹھیکرا ٹھہرا۔ ٹھکرایا ہوا بلّا جانوروں کے مقامی شیلٹر میں اڈاپشن کے لیے موجود تھا۔
میں نے فلائر میں اس کی تصویر دیکھی اور اس کی آنکھوں کی بے کسی اور درد میرے دل کا درد ہوا۔ میں سوچے سمجھے بنا ہی شیلٹر پہنچ گیا۔ وہاں خاصے لوگ اپنے بچوں کے ساتھ جانوروں کی اڈپشن کے لیے موجود تھے۔ میں اس کے کیج سے دور کھڑے ہو کر مجمع کا جائزہ لیتا رہا۔ اس کے پنجرے کے آگے لوگ رکتے اسے پچکارتے مگر وہ خاموش سر نہواڑے، ٹس سے مس نہ ہوتا۔ جب میں اس کے کیج کے نزدیک گیا تو اس نے سر اٹھا کر براہ راست میری آنکھوں میں دیکھا پھر اٹھ کر میرے پاس آ گیا۔ جانے کیوں مجھے اس کی آنکھوں میں لمحہ بھر کو اولیویا نظر آئی۔
یہاں اس خوب صورت جنگل میں مزے کے دن گزر رہے تھے۔ میں صبح سویر ہی چینو کے ساتھ اطراف کی وادی کی کھوج میں نکل پڑتا، کچھ دیر مچھلی کے شکار سے شغل پھر لمبی لمبی ہائیکنگ۔ شام پڑے واپس کاٹیج اور رات میں بون فائر اور پڑوسیوں کی دلچسپ سنگت۔ کل دن میں ایڈم اور ایو واپس شہر جا رہے ہیں۔ آرتھر کا ابھی مزید رکنے کا ارادہ ہے۔ میں شاید سوموار نہیں تو منگل کو یقینی طور پر واپس چلا جاؤں گا۔ آج کی رات ایڈم اور ایو کی الوداعی دعوت ہے۔ میں نے شکار کی ہوئی مچھلیاں بھنی اور آرتھر نے پیزا بیک کیا۔ رات کا بون فائر بہت یادگار رہا۔
آج میں سارا دن کہیں باہر نہیں گیا۔ بس کاٹیج کے درختوں کی جھنڈ میں بیٹھ کر بیئر اور اولیویا کی اسکول میگزین سے دل بہلاتا رہا کہ آج اولیویا کی چھبیسویں سالگرہ بھی تو ہے ناں۔ یہ اس کی دسویں جماعت کی ئیر بک ہے۔ میری پیاری بیٹی اولیویا، میری جان، میری زندگی۔
آج سوموار ہے اور کل میں یہاں سے آگے روانہ ہو جاؤں گا۔ میں اور چینو شام ڈھلے تھکے ہارے کاٹیج پہنچے تو وہ وہاں عجیب ہی دہشت انگیز سماں تھا، پولیس کی بھاری نفری تعینات تھی۔ پتہ چلا کہ بش نے خود کشی کر لی ہے۔
یا وحشت! خود کشی مگر کیوں؟
آرتھر نے بتایا کہ جب وہ دوپہر میں کاٹیج واپس آیا تو اسے بش کہیں نظر نہیں آیا۔ وہ اسے تلاش کرتا ہوا اس کے کیبن پہنچا تو کیبن کا دروازہ اندر سے بند تھا۔ جب آوازیں دینے اور دروازہ کھٹکھٹانے پر بھی بش باہر نہ آیا تو آرتھر گھوم کر کیبن کی پچھلی جانب گیا جہاں ایک چھوٹی، لوہے کی گرل سے مڑھی ہوئی کھڑکی تھی۔ اس نے کھڑکی کے پٹ کو انگلیوں سے دھکیلا تو اسے بش، بستر پر آڑھا ترچھا خون میں لت پت نظر آیا۔
آرتھر نے ہال میں رکھے سیٹلائٹ فون سے پولیس کو کال کیا۔ ای ایم ایس نے بش کو سرد خانے میں منتقل کر دیا ہے۔ اب پولیس، سراغ رساں اور فرانزک والے تفتیش کر رہے ہیں۔ میں شدت سے بور ہوا کہ اب تفتیش کے چکر میں کم از کم چار پانچ دن تو یہیں رکنا پڑے گا۔ میرا آگے کا سارا پروگرام تلپٹ ہوگیا۔ رات گئے تک میں اور آرتھر بون فائر کے گرد بیٹھے کافی کے ساتھ ساتھ قیاس کے گھوڑے دوڑاتے رہے مگر سمجھ سے باہر تھا کہ آخر بش نے خود کشی کی کیوں؟
نوکیلی تیز دھار والا پتلا سا چاقو اس کے گلے کے آر پار تھا۔ اس کے کمرے سے کوئی خط یا ڈائری بھی نہیں ملی، جس سے اس کے حالات پر کچھ روشنی پڑتی۔ پولیس اس کاٹیج کے مالک سے رابطے میں تھی اور وہ بھی بش کے متعلق تفصیلات سے آگاہ نہ تھا۔ ہم لوگ بس اتنا ہی جان سکے کہ بش کا اصلی نام جم رسل ہے اور وہ اس کاٹیج کی دیکھ رکھ کے لیے پچھلے چھ سالوں سے یہیں مقیم۔ حیرت انگیز بات کہ اس عرصے میں اس نے ایک دن بھی چھٹی نہیں کی، حد یہ کہ وہ کرسمس پر بھی اپنے گھر نہیں جاتا تھا۔
تین دن بعد مجھے اور آرتھر کو شہر نہ چھوڑنے کے وعدے پر واپسی کی اجازت مل گئی۔ اب مجھے اس جگہ سے وحشت ہونے لگی تھی۔ میری چوّن سالہ زندگی میں خود کشی کا یہ پہلا کیس تھا اور اس حادثے نے مجھے اندر تک لرزا کر رکھ دیا تھا۔
آج پانچ ماہ ہو گئے اس کیس کو اور اب کیس داخلِ دفتر ہوا۔ گزرتے وقت میں آرتھر اور میں اچھے دوست بن گئے ہیں۔ میرا ارادہ ہے کہ اس سال کرسمس آرتھر کے ساتھ ڈیلس میں مناؤں اور پھر وہاں سے مستقلاً کینیا کے لیے روانہ۔
***
وہ گرمیوں کی چھٹیوں کے شروع ہونے سے پہلے اسکول کا آخری دن تھا۔ اولیویا نے مجھے صبح ہی آگاہ کر دیا تھا وہ اور سنتھیا اسکول کے بعد سنیما اور پھر ساتھ ہی ڈنر بھی کریں گی۔ آج ان دونوں دوستوں کا موج میلا کا پروگرام تھا۔ جب رات دس بجے تک اولیویا کی گھر واپسی نہیں ہوئی تو میں نے سنتھیا کو فون کیا۔ اس نے بتایا کہ آج کا پروگرام تو اس کی طبیعت کی خرابی کے باعث کینسل ہوگیا تھا اور وہ تو ہاف ٹائم ہی میں گھر آ گئی تھی۔ یہ سنتے ہی میری دنیا بگولے کی زد میں آ گئی۔ میں فوراً پولیس اسٹیشن دوڑا انہوں نے ہزار کہنے سننے پر ایمبر الرٹ جاری کر دیا۔ اگلی صبح۔۔
اگلی صبح میری پیاری اولیویا، میری گڑیا اسکول کے کئیر ٹیکرکے کمرے میں موپ کے ڈھیر کے پیچھے مڑی تڑی، بے جان ملی۔ اس کی بند مٹھی بڑی مشکلوں سے کھولی گئی تو اس میں کئیر ٹیکرکے یونی فارم کا بٹن تھا۔ میں صدمے سے دیوانہ ہوگیا۔ مستقل دو ڈھائی سال میرا نفسیاتی علاج چلتا رہا اور اس دوران قاتل، اسکول کا کئیر ٹیکر یعنی جم رسل مفرور رہا، یوں کیس داخلِ دفتر ہوا۔
آج میں پھر بھیگتی رات میں چینو کے ساتھ ٹم ہورٹن میں موجود ہوں مگر آج میرے آگے کوئی سیاحتی نقشہ نہیں کہ ایک سال پہلے میری تلاش ختم ہوئی۔ آج کاٹیج کے راکھا یعنی"جم رسل" کو مرے ہوئے پورا ایک سال ہوگیا ہے اور میں ٹم ہورٹن میں ڈبل ڈبل کافی اور کروسانٹ کے ساتھ جم رسل کے قتل کا جشن منا رہا ہوں۔
بہت بہت شکریہ میرے رفیق، میرے چینو اگر تمہاری مدد شاملِ حال نہ ہوتی تو یہ قتل ہر گز ممکن نہ ہوتا۔ شکریہ میرے مہربان دوست کہ تم نے ایک بے بس باپ کا کلیجہ ٹھنڈا کیا۔ میں نے بتایا تھا ناں کہ میری یادداشت بلا کی اور چینو سرکس کا ٹرینڈ بلا۔ بس پھر کیا! میں عرصے سے جم رسل کی تلاش میں قریہ قریہ چپہ چپہ چھان رہا تھا۔ میں بلاوجہ ہی اسے شہر شہر ڈھونڈتا پھر رہا تھا۔ انہی مایوسی بھرے دنوں میں اچانک میرے دل پر القا ہوا کہ مجھے جم رسل کو شہروں میں نہیں بلکہ ویرانوں میں تلاش کرنا چاہیے۔ پچھلے ڈھائی سالوں سے میں کینیڈا بھر کے سارے کاٹیجز اور لاج کھنگالتا چل رہا تھا۔
بالآخر میری تلاش اس ویرانے میں آ کر ختم ہوئی۔ میں نے چینو کو کیبن کی کھڑکی کی سلاخوں سے اندر داخل کیا اور چینو نے کمالِ مہارت سے دروازے کی چٹخنی کھول دی۔ باقی کا کام تو نہایت آسان تھا۔ میں نے کیبن میں بے سدھ سوتے جم کو اٹھا کر ئیر بک میں اولیویا کی تصویر دکھائی اور اس کی آنکھوں کی پھیلتی پتلیاں اور دہشت زدہ چہرے نے اقرار جرم کر لیا۔ مجھے افسوس ہے تو بس اتنا کہ اپنی خواہش کے برعکس میں اس بد بخت کو اذیت ناک موت نہ دے سکا۔ میں اسے تڑپا تڑپا کر مارنا چاہتا تھا مگر میرے پاس وقت نہ تھا۔ میرے کیبن سے نکلتے ہی چینو نے دروازے کی چٹخنی چڑھا دی، یہ قدرے مشکل مرحلہ تھا مگر چینو نے بخوبی سر کر ہی لیا اور بخیریت کھڑکی کے راستے واپس ہوا۔ اس رات قدرت بھی میری ہمنوا تھی سو رات بھر کی گرجتی برستی بارش نے قدموں کے نشان بھی باقی نہ چھوڑے۔
جم رسل اپنے انجام کو پہنچا۔ پولیس اس کیس کی گتھی کو سلجھا نہ سکی اور بالآخر اِسے خود کشی گردانتے ہوئے جم رسل کی فائل بند کر دی گئی۔