Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shaheen Kamal
  4. Jannat Se Nikale Hue Log (3)

Jannat Se Nikale Hue Log (3)

جنت سے نکالے ہوئے لوگ (3)

رات کروٹیں بدلتے گزر ہی گئی۔ فجر کی نماز کے بعد شدید بھوک کا احساس ہوا کہ میں تقریبا بائیس گھنٹے سے بھوکی تھی۔ اپنے لیے دو پراٹھے اور دو انڈوں کا آملیٹ بنایا اور دو کپ گرما گرم چائے پی۔ اسی اثنا میں نور اٹھ گئی اسے فیڈ اور چینج کیا اور ہم دونوں ماں بیٹی سمندر کی طرف نکل گئے۔ ڈیڑھ دو گھنٹے بیچ پر بیٹھ کر سمندر کو تکتی رہی اور بخارات کی پھوار سے روح کی ٹکور کی، پاؤں تلے ٹھنڈی ریت نے روح کی تپش کو ایسے سرد کیا گویا۔

روح تک آ گئی تاثیر مسحائی کی

اس سے کافی آسودگی محسوس ہوئی۔ گھر پر حسیب ابھی ابھی اٹھے تھے اور نہایت چونچال موڈ میں تھے۔ مجھ سے کہا کہ ذرا ملباری کو چائے پراٹھے کا آڈر تو دے دو پلیز۔ میں نے حسب فرمان آڈر دے دیا اور آملیٹ بھی بنا دیا۔ وہ ناشتے کے بعد کل کے رویے کی معذرت کرنے لگے۔ میں نے کہا حسیب! ہم دونوں کا کل کا دن خراب تھا۔ ہم دونوں نے دن کا کھانا نہیں کھایا تھا مگر اس طرح آپے سے باہر ہونا تو بہت ہی نامناسب رویہ تھا۔ ہم لوگ اکثر باہر سے کھانا آڈر کرتے ہیں، کل ایسی کون سی قیامت تھی کہ گھر ہی میں کھانا پکنا ضروری تھا۔ خیر حسیب کی طرف سے معافی تلافی ہوتی رہی مگر میرے دل پر خراش پڑ گئی تھی۔ دو سالہ ازدواجی زندگی کی پہلی گرہ۔ ۔

میری بڑی پھوپھی کہتی تھیں کہ"میاں کا بھات کھانا لوہے کا چنا چبانا ہے۔ "اس وقت اس بات پر، ہم فینٹسی کی ماری الہڑ لڑکیاں منہ چھپا کے ہنسا کرتی تھیں کہ پھوپھی جان بھی کیسی باتیں کرتیں ہیں۔ اب احساس ہوتا، کہ وہ کس قدر صحیح کہتیں تھیں۔ جب آپ کی عزت نفس کی دھجی اڑائی جاتی ہے تو اس تکلیف کو انسان بیان کرنے سے قاصر ہے۔ شاید یہ سب کچھ شادی شدہ زندگی کے پیکج میں شامل ہے۔ sanityبرقرار رکھنے کے لئے تھوڑی بےحسی لازم ہے اور لڑکیوں کو چاہئے رخصتی سے پہلے لاڈ، نخرے اور عزت نفس کو ایک لفافے میں ڈال کر سربمہر کر دیں اور اپنے بک شلف میں موجود سب سے موٹی کتاب کے نیچے دبا دیں۔ پھر شادی شدہ زندگی یقینا قدرے آسان ہو جائے گی۔

تین بجے کے قریب حسینہ آ گئی۔

تم آج کیسے؟ میں حیران تھی کہ آج تو جمعہ ہے۔

آپا تین دن چھٹی کور لیا تھا نا، اسی لیے میں آج آ گئی۔

مگر تم کو ہوا کیا ہے حسینہ؟ ٹھہرو تم نے کھانا کھایا ہے؟

جواب اس کے چہرے پر ہی لکھا تھا۔ میرا سوال ہی احمقانہ تھا۔ جلدی سے اس کو کھانا نکال کر دیا۔ اس نے بہت بےدلی سے کھایا۔ وہ اس قدر ٹوٹی اور بکھری ہوئی تھی کہ سچ مانو تو کچھ پوچھتے ہوئے ڈر لگ رہا تھا۔ کھانا کھا کے پلیٹ کچن میں رکھنے گئی تو وہیں سے آواز دے کر پوچھا آپا بھیا چائے پئے گے؟ میں نے کہا بھیا ہر وقت چائے پی سکتے ہیں بنا دو۔ حسینہ نے حسیب کو چائے دی اور ٹرے میں اپنی اور میری کپ لیکر لیونگ روم میں آ گئی۔ چائے پی کر کہنے لگی آپا آپ دوسرا ماسی ڈھونڈ لو، ہم اگلے مہینے وآپس بنگلہ دیش جا رہا ہے۔ میں خاموش رہی۔ پھر وہ خود ہی ایک ٹرانس کی کفیت میں بولنے لگی۔

اب میں کس کے لیے محنت کروں ؟ روپالی تو بھاگ گئی۔ اس کے پیچھے ہم نے اپنا جندگی مٹی کر دیا اور وہ ایک چھوکرا کی محبت میں ماں کو لات مار کے چلی گئی۔ ہم اس کو پڑھا لکھا کر ایک عجت کا جندگی دینے مانگتی تھی۔ کیا کیا رے روپی، تو نے کیا کیا رے؟ سوب کھلاس کر دیا۔ اب کیا ہو گا؟ دو سال کے بعد ایک بچہ لے کے پھر ماں کے درواجے پر ہوگا اور کیا ہو گا؟ آج کل کے چھوکرا لوک کا بس یہی چار دن کا عاشقی ماشکی ہوتا ہے۔ ہم روپی کو کتنا بولی کہ پڑھ لے ماں مونی پڑھ لے۔ جندگی بن جاتی۔ ماں کی طرح گھر گھر جھاڑو برتن تو نئی کورتی۔ پر نئی، اپنے آپ کو اجاڑ لیئے نا، ناس پیٹی نے۔ میرا جندگی بھر کا کمائی کھاک میں ملا دئیے۔

ہم اب کیا کرے آپا، بولو اب ہم کیا کرے؟ حسینہ کا بلکنا نہیں دیکھا جاتا تھا۔ اس کا خواب بکھر گیا تھا۔ وہ ایک خواب جو اس کو مہمیز رکھتا تھا، جو اس کی زندگی کی وجہ تھا وہی خواب چکنا چور ہو گیا۔ میں اسے تسلی دیتی بھی تو کیا دیتی؟ میں خود نہیں جانتی تھی کہ روپالی جس کے ساتھ گئی ہے وہ واقعی مخلص ہے بھی کہ نہیں؟ یہ محبت ہے یا صرف جوانی کا ابال؟ زندگی بھی کیسی کیسی مار دیتی ہے۔ پھر حسینہ چلی گئی۔ دوسری کام والی آ گئی، بھلا دنیا کا کاروبار بھی کسی کے لیے رکا ہے۔

زندگی کھٹی میٹھی ٹافی کی طرح گھلتی جا رہی تھی کہ شاید یہی اس کا حسن ہے۔ ایک روز وہی ملباری والا رات میں چائے دینے آیا تو میں نے اسے تازہ کھانا پیک کر کے دے دیا اور ساتھ ہی دس درہم بھی۔ اس کی آنکھوں کی حیرانی نے مجھے حیران اور شرمندہ کر دیا۔ کیا وہ انسانیت سے اتنا مجروح و مایوس تھا؟ پھر میں اکثر اس کو کھانے کے لئے کچھ نہ کچھ دینے لگی۔ اب بھی اس کی آزردگی اور بے زاری ویسے ہی تھی مگر سر جھکائے جھکائے سلام ضرور کر دیتا تھا۔ پھر ایسا ہوا کہ رات میں اس جگہ دوسرا ڈیلوری مین آنے لگا۔ اس بات سے مجھے ذرا بےچینی ہوئی کہ وہ کہاں گیا؟

کیا ہوا اس کے ساتھ؟ اس کی اداسی نے میرے اعصاب میں اپنے پنجے گڑا دیے تھے اور میں واقعی اس کے بارے میں متجسس تھی۔ میری اس عادت سے حسیب کو سخت چڑ تھی، سو میں نے ان سے اس کا کھوج لگانے کونہیں کہا۔ اسکول سے وآپسی پر اتفاق سے مجھے گل خان، بلڈنگ کا چوکیدار مل گیا۔ اس سے میں نے ملباری کے ڈیلوری مین کے بارے میں پوچھا؟ وہ کہنے لگا باجی وہ تو ایک ہفتہ ہوا مر گیا۔ اس نے خودکشی کر لی۔ اس کا باپ بار بار پیسے کا تقاضہ کرتا تھا۔ اپنے باپ کی بات پورا کرنے کے لیے بیچارا دو دو نوکری کرتا تھا۔ صبح کنسٹرکشن سائیٹ پر اور رات میں ملباری ہوٹل میں۔

ہوٹل والا اس کے گاوں کا ہے اس لیے اس کو رات میں ہوٹل میں سونے کی جگہ دے دیا تھا، مگر اس کے باپ کا پیسے کا ڈیمانڈ ہی ختم نہیں ہوتا تھا۔ اس کا باپ اس کو ہر وقت برا بھلا بولتا تھا۔ کہتا تھا کہ تم ہم سے پیسہ چھپاتا ہے۔ پورا پیسہ نہیں دیتا۔ تم باپ کا حق مارتا ہے، تم جہنم میں جائے گا۔ وہ بہت پریشان تھا۔ بیچارہ تو پیٹ بھر کر روٹی بھی نہیں کھاتا تھا باجی۔ وہ بولتا تھا کہ وہ بس اب خوکشی ہی کر لے گا، زندہ تو باپ کے کام نہیں آ رہا۔ جب ہم حادثے میں مرے گا تو حکومت پیسہ دیےگی۔ چلو تب ہی باپ کے کلیجے میں ٹھنڈ پڑ جائے گی۔ زندہ نہ سہی، مردہ بیٹا تو کام آوے۔

اس کا ایک چھوٹا بیٹا بھی ہے۔ اس کو یاد کر کے بہت روتا تھا۔ ابھی ہفتہ پہلے کام پر اس کو فورمین نے غصہ کیا اور گالی مالی بھی دیا بس وہ چھٹی منزل سے نیچے کود گیا۔ اب تو اس کا لاش بھی ڈیرہ غازی خان چلا گیا ہے۔ مجھے تو چکر آ گیا، کس قدر سفاک دنیا ہے۔ کیسے ہیں ہم لوگ؟ انسان کو بےدست وپا کر کے اس سے جینے کا حق بھی چھین لیتے ہیں۔ اس کو اتنے کچوکے دیتے ہیں، اتنا زخم لگاتے ہیں کہ اس کو موت ہی راحت اور نجات دہندہ لگنے لگتی ہے۔

کیا ہم لوگ واقعی اشرف المخلوقات ہیں؟ یا اب گدھ سے بھی بدتر ہو گئے ہیں؟ گدھ بھی صبر سے اپنے شکار کی موت کا انتظار کرتا ہے مگر ہم لوگ تو زندہ انسان کو نوچ لیتے ہیں، گھائل کر دیتے ہیں۔ ان کو جیتے جی مار دیتے ہیں۔

میرے چارہ گر کو نوید ہو، صف دشمناں کو خبر کرو

وہ جو قرض رکھتے تھے جان پر، وہ حساب آج چکا دیا

Check Also

Taunsa Barrage

By Zafar Iqbal Wattoo